جنس تبدیلی کی شرعی حیثیت اور اس کا حکم

Darul Ifta mix

جنس تبدیلی کی شرعی حیثیت اور اس کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ زمانے میں مرد عورتیں بنتی ہیں اور اسی طرح عورتیں مرد بنتے ہیں یعنی مرد اپنا عضوِ تناسل کٹوا کر عورت بنتی ہے اور عورت ا پنے مخصوص اعضائمیں مرد کی طرح مخصوص اعضا ء کا اضافہ کرتی ہیں ا۔ب وہ مرد جو عورت بنی ہے ،تو کیا اس پر عورتوں والے احکام لاگوہوں گے اور اسی طرح وہ عورت جو مردبنی ہے، تو کیا اس پر مردوں والے احکام جاری ہوں گے اور اسی طرح وہ مرد جو عورت بنی ہے اگر کسی مرد سے شادی کرتی ہے او ربالفرض اسے حمل ٹھہر جائے تو اس کا کیا حکم ہے۔ برائے کرم اس مسئلہ کی قرآن وحدیث کی روشنی میں مکمل وضاحت فرماکر ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

 

جواب

واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ مخصوص انسانی اعضاء میں قطع وبرید کو شرعاً جنس کی تبدیلی نہیں کہا جاسکتا، بلکہ عرفاً اسے تبدیلیٴ جنس کہہ سکتے ہیں ،جس میں ظاہری مخصوص اعضا، تو اگرچہ تبدیل کر لیے جاتے ہیں، لیکن بچہ دانی وغیرہ کے نہ لگنے کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

لہٰذا جو لوگ جنس کی تبدیلی کے نام پراپنے جسموں کے مخصوص اعضاء میں قطع وبرید کرتے ہیں، اس سے مخصوص اعضاء میں ظاہری تبدیلی کے باوجود اصل جنس کے احکام نہیں بدلیں گے، یہ لوگ اپنے جسموں میں ناجائز تصرف کر رہے ہیں اس قسم کی قطع وبرید سے انہیں فطری شہوت رانی کے علاہ کوئی فائدہ حصولِ اولاد کے حوالے سے ممکن نہیں، لہٰذا نہ وہ کہیں ہم جنس سے شادی کرسکتے ہیں اور اور نہ ہی دیگر احکام میں کوئی تبدیلی آئے گی، بلکہ تبدیلی سے قبل جو مرد تھا اس پر مردوں والے اور جو عورت تھی اس پر عورتوں والے احکام ہی لاگوہوں گے، البتہ ایسا کام کرنے والے لوگتغییر لخلق الله جیسے بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، انہیں فوراً اس قبیح فعل سے رک جانا چاہیے اور الله رب العٰلمین کے حضور توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی