جان بوجھ کرفرض روزہ توڑنے کا حکم

Darul Ifta

جان بوجھ کرفرض روزہ توڑنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ والدین کے ساتھ میرا جھگڑا ہوا، جھگڑے کے بعد میں نے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا اور کھانا پینا بھی شروع کردیا، تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

رمضان شریف کا روزہ جان بوجھ کر توڑنا بہت سخت گناہ ہے، توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی، رمضان شریف کا روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اور اگر غلام نہ ہو(جیسا کہ اس زمانے میں غلام نہیں ہے)تو دو مہینے لگاتار روزے رکھے،درمیان میں وقفہ کرنا درست نہیں،  اگر کسی وجہ سے درمیان میں ایک دن کا روزہ بھی رہ گیا تو دوبارہ نئے سرے سے شروع کرے ،یہاں تک کہ دو مہینے کے روزے بغیر وقفے کے پورے ہو جائیں اور جو شخص بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔
فأکل عمدا قضی وکفر ککفارۃ المظاھر.(قولہ:(ککفارۃ المظاھر) مرتبط بقولہ: (وکفر) أي مثلھا في الترتیب فیعتق أولا، فإن لم یجد صام شھرین متتابعین، فإن لم یستطع أطعم ستین مسکینا ۔۔۔ فلو أفطر تعذر استأنف۔۔۔ في التشبیہ إشارۃ إلی أنہ لا یلزم کونہا مثلہا من کل وجہ، فإن المسیس في أثنائہا یقطع التتابع في کفارۃ الظہار مطلقا عمدا أو نسیانا لیلا أو نہارا للآیۃ بخلاف کفارۃ الصوم والقتل فإنہ لا یقطعہ فیہما إلا الفطر بعذر أو بغیر عذر، فتأمل. (تنویر الأبصار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم وما لایفسدہ: ٣/٤٤٥، ٤٤٨، دارالمعرفۃ)
''کفارۃ الفطر، وکفارۃ الظہار واحدۃ ، وہي عتق رقبۃ مؤمنۃ أو کافرۃ فإن لم یقدر علی العتق فعلیہ صیام شہرین متتابعین، وإن لم یستطع فعلیہ إطعام ستین مسکینا کل مسکین صاعا من تمر أو شعیر أو نصف صاع من حنطۃ''. ( الھندیۃ: کتاب الصوم، المتفرقات: ١/٢١٥، رشیدیۃ)
''وأما المقدار في طعام الإباحۃ فأکلتان مشبعتان غداء وعشاء ، وہذا قول عامۃ العلمائ. (بدائع الصنائع، کتاب الصوم، باب مقدار الطعام: ٢/٢٦١، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer