تکبیراتِ تشریق کے پڑھنے کی شرعی حیثیت

تکبیراتِ تشریق کے پڑھنے کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ تکبیرات تشریق کسے کہتے ہیں ؟ کب سے کب تک پڑھی جاتی ہے، اور یہ تکبیرات کس پر واجب ہیں؟اگر کوئی شخص ان تکبیرات کو بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے۔

جواب

درج ذیل کلمات کو تکبیر تشریق کہا جاتا ہے:

اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ وَاَللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ.

ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد فوراً بلند آواز سے تکبیرات شریق پڑھنا واجب ہے،البتہ عورتیں آہستہ سے کہیں۔

حضرت صاحبین رحمہما اﷲ کے قول کے مطابق تکبیراتِ تشریق امام، مقتدی، مسبوق، منفرد، شہری، دیہاتی، مقیم، مسافر، مرد اور عورت سب پر واجب ہے،حضرات فقہا ءکرام کے نزدیک یہی قول مفتیٰ بہ ہے ، اس لیے تمام افراد کو تکبیرات ِتشریق ہر فرض نماز کے بعد کہہ لینی چاہیے۔

کوئی شخص اگر تکبیرات کہنا بھول جائے اور مسجد سے نکل جائے تو پھر اس کو تکبیرات نہیں کہنی چاہیے، اس لیے کہ تکبیرات کی قضا نہیں، البتہ آئندہ کے لیے احتیاط کرے۔

''وَیَجِبُ تَکْبِیرُ التَّشْرِیقِ) فِی الْأَصَحِّ ۔۔۔(عَلَی إمَامٍ مُقِیمٍ)وَ عَلَی مُقْتَدٍ (مُسَافِرٍ أَوْ قَرَوِیٍّ أَوْ امْرَأَۃٍ)۔۔۔ وقالا بوجوبہ فَوْرَ کُلِّ فَرْضٍ مُطْلَقًا) وَلَوْ مُنْفَرِدًا أَوْ مُسَافِرًا أَوْ امْرَأَۃً لِأَنَّہُ تَبَعٌ لِلْمَکْتُوبَۃِ (إلَی)عَصْرِ الْیَوْمِ الْخَامِسِ(آخِرِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ وَعَلَیْہِ الِاعْتِمَادُ)وَالْعَمَلُ وَالْفَتْوَی فِی عَامَّۃِ الْأَمْصَارِ وَکَافَّۃِ الْأَعْصَارِ.''(الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب العیدین،٢/١٧٩،١٨٠،سعید)

''وقالا بوجوبہ فَوْرَ کُلِّ فَرْضٍ مُطْلَقًا) وَلَوْ مُنْفَرِدًا أَوْ مُسَافِرًا أَوْ امْرَأَۃً لِأَنَّہُ تَبَعٌ لِلْمَکْتُوبَۃِ ۔۔۔عَصْرِ الْیَوْمِ الْخَامِسِ(آخِرِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ وَعَلَیْہِ الِاعْتِمَادُ) وَالْعَمَلُ وَالْفَتْوَی فِی عَامَّۃِ الْأَمْصَارِ وَکَافَّۃِ الْأَعْصَارِ.''(الھندیۃ، کتاب الصلاۃ ١/١٥٢،رشیدیۃ)

''وَیَجِبُ تَکْبِیرُ التَّشْرِیقِ) فِی الْأَصَحّ لِلْأَمْرِ بِہِ (مَرَّۃً)۔۔۔(عَقِبَ کُلِّ فَرْضٍ)بِلَا فَصْلٍ یَمْنَعُ الْبِنَاء َ.''الدر المختار)

(قَوْلُہُ بِلَا فَصْلٍ یَمْنَعُ الْبِنَاء َ)فَلَوْ خَرَجَ مِنْ الْمَسْجِدِ أَوْ تَکَلَّمَ عَامِدًا أَوْ سَاہِیًا أَوْ أَحْدَثَ عَامِدًا سَقَطَ عَنْہُ التَّکْبِیرُ.'' (رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین،٢/١٧٧،١٧٩،سعید)

''وَأَمَّا أَدَائِہِ فَدُبُرُ الصَّلَاۃِ وَفَوْرُہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَتَخَلَّلَ مَا یَقْطَعُ حُرْمَۃَ الصَّلَاۃِ حَتَّی لَوْ ضَحِکَ قَہْقَہَۃً أَوْ أَحْدَثَ مُتَعَمِّدًا أَوْ تَکَلَّمَ عَامِدًا أَوْ سَاہِیًا ۔۔۔لَا یُکَبِّرُ؛ لِأَنَّ التَّکْبِیرَ مِنْ خَصَائِصِ الصَّلَاۃِ.''(البحرالرائق،کتاب الصلوٰۃ،باب صلاۃ العیدین،٢/٢٨٨،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی