تعلیم وتربیت کی غرض سے شاگردوں کی پٹائی

Darul Ifta mix

تعلیم وتربیت کی غرض سے شاگردوں کی پٹائی

سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں :
کیا استاد تعلیم وتربیت کے لیے اپنے بالغ ونابالغ شاگردوں کی پٹائی کرسکتا ہے؟ اگرکرسکتا ہے تو پٹائی کس چیز سے اور کس قدر جائز ہے؟ جسم کے کن کن اعضاء پر پٹائی جائز ہے اور کن پر نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ تعلیم وتعلم کے سلسلے میں نرمی، شفقت وخوش اخلاقی جتنی مؤثر ہے ،مار پیٹ اور سختی اس کا عشر عشیر بھی نہیں، کیوں کہ نرمی وخوش خلقی کا اثر براہ راست قلب پر پڑتا ہے جس سے شاگرد کے دل میں استاذ کی عظمت کے ساتھ ساتھ محنت اور کوشش کا جذبہ بھی بیدار ہو تا ہے، برخلاف سختی وغیرہ کے کہ وقتی طور پر اگرچہ اس سے مطلوبہ مقصد حاصل ہو جائے گا لیکن یہ اثر جلد ہی زائل ہو جائے گا۔

علامہ قاری صدیق احمد صاحب فرماتے ہیں:
”تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سخت کلمات کی بہ نسبت نرم کلمات زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، یہ حماقت ہے کہ جس برتن میں آدمی کچھ ڈالنا چاہے پہلے اسی میں سوراخ کر دے، جب شاگرد کے دل کو اپنی سختی او رمارپیٹ سے چھلنی کر دے گا تو اس میں خیر کی بات کس طرح ڈالے گا؟ (آداب المعلمین،ص:10،ط: مجلس نشریات اسلام)

اس تمہید کے بعد اپنے شاگردوں کی پٹائی چند شرائط کے ساتھ درست ہے۔
1..مارنے میں اس بات کا لحاظ کیا جائے کہ سزا سے مقصود زجر وتادیب او راصلاح طلبہ ہو، انہیں تکلیف وایذا رسانی کی نیت سے سزا نہ دی جائے۔
2..جسمانی سزا میں عصا وغیرہ کے علاوہ دیگر جسمانی سزاؤں کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
3..چہرے پر مارنے سے گریز کیا جائے۔
4..ایک ہی جگہ پر نہ مارا جائے۔
5..سزا دینے میں جرم کی کیفیت وکمیت کو ملحوظ رکھا جائے۔
6..اگر جرم ایک ہو لیکن اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے مرتبے کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
7..غصے کی حالت میں سزا نہ دی جائے، کیوں کہ غصے کی وجہ سے انسان حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہے اور بعید نہیں کہ غیر مستحق بھی سزا کی لپیٹ میں آجائے یا مستحق سزا کو حد سے زیادہ سزا دی جائے۔
8..چہرہ او رنازک اعضا پر مارنا جائز نہیں اور نہ ہی ایسا مارنا جائز ہے جس سے نشان پڑ جائے، یا دل پر اثر پڑے یا ہڈی تک اثرپہنچے، یا کھال چھلے یا خون نکلے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی