بے سند معالج کا علاج، کمائی اورتاوان /ضمان کا حکم

Darul Ifta mix

بے سند معالج کا علاج، کمائی اورتاوان /ضمان کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے متعلق کہ ہر وہ معالج جو نہ قانوناً کسی مرض کا علاج کرنے کا مجاز ہو اور نہ وہ کسی مستند طبی ادارے سے سند یافتہ ہو، لیکن وہ فن طب کے متعلق تجربہ اور واقفیت رکھتا ہو، تو شرعی اعتبار سے ایسے معالج کے لیے کسی مریض کا علاج کرناجائز ہے یا نہیں؟

اگر ایسے شخص کے لیے علاج کرنا جائز نہ ہو تو اس کے علاج سے حاصل شدہ کمائی کا کیا حکم ہے؟ اگر ایسے معالج سے کسی کو غیر معمولی ضرر لاحق ہو جائے تو کیا ایسے معالج پر ضمان لازم ہو گی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ شخص ، چاہے وہ حکیم ہو یا معالج یا ڈاکٹر، جسے علم طب کے نشیب وفراز، پیچ وخم میں خوبی کے ساتھ واقفیت اور تجربہ حاصل ہو، لیکن وہ مستند (کسی ادارے سے سند یافتہ) نہ ہو ، اس کے لیے اگرچہ مریض کا علاج کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں، البتہ چوں کہ حکومت کی طرف سے ایسے حضرات کے لیے علاج کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور حکومتی قوانین کی پاس داری اور حکم عدولی سے بچنا بھی شریعت کا ہی حصہ ہے، اس لیے ایسے حضرات کا اپنی عزت وآبرو کو بچانے کی خاطر علاج کرنے سے اجتناب بہتر ہے۔

لیکن پھر بھی اگر کسی نے خلاف ورزی کرکے کچھ آمدنی کمائی، تو آمدنی حرام نہیں، بشرطیکہ وہ واقعتا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مذکورہ بالا معالج کی دوائی کے استعمال کرنے کی وجہ سے اگر کوئی نقصان لاحق ہوا، تو شرعاً اس پر کوئی ضمان لازم نہیں، البتہ درج بالا شخص کے فعل (انجکشن یا آپریشن کرنے) کی بنا پر نقصان لاحق ہو، تو اگر علاج قواعد ِ طب اور اجازت کے ساتھ کیا ہے تو وہ ضامن نہیں ہو گا۔۔  فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی