بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائز ہے ، یا نہیں؟

Darul Ifta mix

بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائز ہے ، یا نہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ لوگ جمع ہوتے ہیں،آپس میں یہ طے کر لیتے ہیں کہ پورا مہینہ ان میں سے ہر ایک آدمی ایک ایک لاکھ روپے جمع کریں گے،اور مہینے کے پورا  ہوتے ہی قرعہ اندازی کر لیتے ہیں،یہ لوگ اگر پانچ ہیں تو پانچ لاکھ  روپے اور اگر دس ہیں تو دس لاکھ روپے  اس آدمی کے سپرد کردیتے ہیں،جس  کا نام قرعہ اندازی میں نکلا ہو ، حالانکہ اس آدمی  کی جیب سے گئے ایک لاکھ ہیں، اور آئے دس لاکھ ہیں ، کیا شریعت میں اس کا جواز ہے ، یا نہیں؟

تنقیح:  مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مروجہ بی سی ( کمیٹی) کی صورت ہے ، یعنی ان میں سے ہر ایک کو باری باری دس دس لاکھ روپے ملیں گے۔

 

جواب

کمیٹی ڈالنے کی جو عام شکل رائج ہے،کہ چند آدمی  رقم جمع کرتے ہیں، اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے وہ رقم کسی ایک کو دے دی جاتی ہے،اس میں  شرعاً  کوئی قباحت نہیں ،بشرطیکہ مندرجہ ذیل شرائط کی مکمل پابندی کی جائے:

۱۔۔۔ بنام کمیٹی جمع کردہ رقم سب شرکاء کی رضامندی سے  بلا قرعہ  کسی ایک کو بطورِ قرض دی جائے یا بذریعہ قرعہ دی جائے ، مگر قرعہ کے نتائج کو لازم  نہ قرار دیا جائے ، بلکہ سب شرکاء کی رضامندی سے صرف تسہیلِ انتخاب کا ایک ذریعہ ،   قرعہ اندازی کو سمجھا جائے۔

۲۔۔۔ ہر شریک کو ہر وقت الگ ہونے کا اختیار رہے، کوئی جبر  نہ ہو ، بلکہ ایک یا چند مرتبہ رقم کسی شریک کو دے  دینے کے بعد بھی ہر شریک کو علیحدہ ہو جانے کا پورا اختیار ہو، اور اسے دی ہوئی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق حاصل ہو ، اس پر شرکاء میں کسی کو اعتراض نہ ہو ۔

۳۔۔۔ ایک ماہ کی مدت کو لازم نہ قرار دیا جائے، بلکہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم کی واپسی کے مطالبے کا حق حاصل ہو۔

وفي الهندية:

قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به.

(كتاب البيوع،باب في القرض والمستقرض،3191،ط: دارالفكر)

 

وفي الهداية:

قال وكل دين حال إذا أجله صاحبه صار مؤجلا لما ذكرنا إلا القرض فإن تأجيله لا يصح لأنه إعارة وصلة في الابتداء حتى يصح بلفظة الإعارة ولا يملكه من لا يملك التبرع كالوصي والصبي ومعاوضة في الانتهاء فعلى اعتبار الابتداء لا يلزم التأجيل فيه كما في الإعارة إذ لا جبر في التبرع وعلى اعتبار الانتهاء لا يصح لأنه يصير بيع الدراهم بالدراهم نسيئة وهو ربا.

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،381،رحمانية) ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 165/91