بیوی، بچوں کے نان ونفقہ سے متعلق مختلف سوالات

Darul Ifta mix

بیوی، بچوں کے نان ونفقہ سے متعلق مختلف سوالات

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:2005 میں میری شادی ہوئی اور ہماری اچھی زندگی گزر رہی تھی اوراب میرے تین بچے ہیں اب میرا بچہ پیدا ہوا تو میرے بچے کے چالیس دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ ان کی والدہ نے مجھے فون کیا کہ ہماری بیٹی کومیکے بھیج دو ! میں نے کہا کہ ابھی تو وہ ایام نفاس میں ہیں جب دن اختتام کو پہنچے گے تو میں خود ہی اس کو لے آؤں گا تو اس بات پر ان کے بڑے بیٹے نے مجھے فون کیا اور گالیاں دیں تو گالیاں میری اہلیہ نے سن لی تو مجھ سے فون لے کر والدین سے خود بات کی کہ میں یہاں خوش ہوں اور آپ لوگ مجھے یہاں سے نہ لے کر جائیں تو وہ لوگ ہمارے گھر آکر ہم سے لڑنے لگے حتی کہ میرے ضعیف والد کو زخمی کیا جس سے ہمیں تکلیف ہوئی پھر ہمارا یہ معاملہ تھانے چلا گیا وہاں فریقین میں صلح ہوکر گھر واپس آکر اپنی اہلیہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔
لیکن اس دن سے لے کر آج تک میرے بچوں کو انہوں نے واپس آنے نہیں دیا حالاں کہ میر ی بیوی ان سے میرے ہاں آنے کا کہہ رہی ہے اور آنے پر راضی ہے لیکن والدان کو اجازت نہیں دے رہے ہیں اور آج تک میں سات جرگے بھی کر چکا ہوں جس میں میں نے ان سے معافی مانگی لیکن مانا نہیں پھرمیں نے عدالت میں فیصلہ درج کروایا لیکن پھر انہوں نے میری اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے کچھ شرائط لگائی اور شرائط حقیقت میں ان کے والد کی طرف سے ہیں لیکن نام میری بیوی کا دیا۔ وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1…لڑکی کا مہر باپ کو دیا جائے گا اور باپ جیسے بھی استعمال کرے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
2…لڑکی کو الگ مکان میں رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ میرے بہن بھائیوں کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
3…لڑکی کو موبائل فون دیا جائے گا کہ والدین کے ساتھ بات کرسکے اور ہم جب چاہیں اپنی بچی کو اپنے گھر بلائیں گے، نیز لانا اور لے جانا شوہر کی ذمہ داری ہو گی اور ہر مہینے میں دو دن گزارے گی۔
4…اور لڑکے کے والد اور بہن بھائی سب ہم سے معافی مانگیں!
5…اور لڑکا اپنی بیوی اور تین بچوں کا خرچہ بھی دے گا جتنا عرصہ انہوں نے والدین کے گھر گزارا ہے ایک ماہ کے چھ ہزار روپے دے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جولائی2012ء سے اب تک اپنی ماں کے گھر میں ہیں تو کیا وہ اب بھی میرے نکاح میں ہیں یا نہیں اور میں اپنے بچوں کو لے سکتا ہوں یا نہیں؟
میں نے الگ مکان کی شرط کو قبول کیا، حق مہر لڑکی کو دینے کے لیے تیار ہوں نہ کہ اس کے باپ کواور جہاں تک معافی کی بات ہے تو میں اپنی ذات کے اعتبار سے اب بھی تیار ہوں لیکن میں اپنے بڑے بھائی او روالد کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ بھی معافی مانگیں۔
نیز جو مہر مانگنے کی بات ہے تو وہ میرا سسر لالچ کی وجہ سے مانگ رہا ہے اس لیے کہ اسی طرح اس نے بڑی بیٹی کو بھی خلع دلوا کر گھر میں بٹھا دیا ہے اورمجھے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اگر میں نے مہر دیاتو وہ میری بیوی کا مجھ سے کورٹ کے ذریعہ خلع کروالے گا اور میرے گھر والے میری دوسری شادی کروارہے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ پہلی بیوی ہی کو واپس گھر لے آؤں لیکن مجھ سے بھی اب اور برداشت نہیں ہو سکتا اگر میں نے دوسری شادی کی تو پھر میں دونوں کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا اور وہاں میرے بچوں کا مستقبل بھی خراب ہو رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے مجھے واپس کر دے لیکن وہ لوگ بضد ہیں اس بات سے کہ وہ مجھے بچے دیں اور ان کا خرچہ بھی مانگ رہے ہیں اور وہاں میری بچی کو بھی پڑھنے نہیں دیتے۔
لہٰذا مہربانی فرماکر اس مسئلہ میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

جواب 

صورت مسئولہ میں اگر آپ نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تو آپ کا نکاح برقرار ہے، جاننا چاہیے کہ طلاق یاتفریق کی صورت میں سات سال سے کم عمر بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے البتہ جس بچے کی عمر سات سال سے زیادہ ہو جائے تو باپ اس کو اپنے پاس رکھ کر اس کی تعلیم وتربیت کرے ، لیکن بچی کی پروش کرنے اور خانہ داری کے امور کی تربیت دینے کے لیے نو سال تک ماں اپنے پاس رکھے ، اس کے بعد باپ اس کو اپنی تربیت میں رکھے۔
اب ذیل میں ان شرائط کا حکم ذکر کیا جاتا ہے ، جو سوال میں مذکور ہیں:
1…لڑکی کے باپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مہر کامطالبہ کرے، کیوں کہ شریعت نے مہر کے مطالے کا حق صرف لڑکی کو ہی دیا ہے ۔
2… بیوی کے لیے شوہر سے ایسی رہائش گاہ کا مطالبہ کرنا جائز ہے ، جہاں شوہر کے کسی رشتہ دار ، مثلاً: ماں، باپ، بہن، بھائی وغیرہم کا دخل نہ ہو۔ ( اگرچہ وہ گھر کا ایک علیحدہ حصہ یا کمرہ ہی کیوں نہ ہو ، جس میں تمام ضروریات زندگی مثلاً: باورچی خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ موجود ہوں) تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ حقوقِ زوجیت نبھا سکے۔
3… شوہر پر یہ لازم نہیں کہ بیو ی کو موبائل فون لے کر دے ،رہی والدین سے ملنے ملانے کی بات ، تو اگر لڑکی کے والدین ہر جمعے ( یا ہفتے میں کسی ایک دن ) لڑکی سے ملنے آئیں تو شرعاً ان کو اجازت ہے ، شوہر ان کو ملنے سے نہیں روک سکتا لیکن اگر لڑکی کے والدین ضعیف ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے خود آنے کی طاقت نہیں رکھتے تو متعارف طور پر لڑکی کو بھی والدین کے گھر جانے کی اجازت ہے۔
4… سوال میں آپ نے ذکر نہیں کیا کہ آ پ سے بھی کوئی قصور ہوا ہے جس کی معافی مانگنے پر آپ کو مجبور کیا جارہا ہے ،بہرحال آپ کا جو بھی قصور ہے ، اس کی معافی مانگنے میں کوئی عار محسو س نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ کے بہن بھائی اور والد کا بھی قصور ہے تو ان کو بھی معافی مانگنی چاہیے ، ورنہ نہیں۔
5…جتنی مدت کے لیے آپ کے بچے آپ سے جدا رہے ، اس مدت میں بچوں کا خرچ آپ پر لازم تھا، لیکن اگر آپ نے ادا نہیں کیا تو وہ ساقط ہو گیا ، اب اس کی ادائیگی آپ کے ذمے لازم نہیں ہے ، لیکن آئندہ کے لیے بچوں کے خرچ کی ادائیگی آپ کے ذمے لازم ہے ، جب تک وہ کمانے کے قابل نہ ہو جائیں۔ البتہ بیوی کا خرچ ( جدائی کی مدت کے دوران) آپ پر لازم نہیں تھا اور نہ ہی اب اس کا خرچ آپ پر لازم ہے ( جب تک وہ آپ کے گھر نہیں آجاتی). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی