بینک کی ملازمت کا شرعی حکم

Darul Ifta mix

بینک کی ملازمت کا شرعی حکم

سوال

 کیا فرماتے علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں:

بینک کی نوکری حرام ہے یا نہیں اگر ہے تو کیوں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہا جاتا ہے کہ ہم تو بینک میں اپنی محنت کرتے ہیں دن رات کام کرتے ہیں تب تنخواہ ملتی ہے، براہ کرام ان باتوں کی ہر پہلو سے وضاحت فرمائیں۔

اگر نوکری کی بہت سخت ضرورت ہو اس دوران بینک کی نوکری کے علاوہ دوسری نوکری آسانی سے نہ مل رہی ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ۔

جواب 

واضح رہے کہ بینک میں کام کرنے والے ملازمین دو طرح کے ہوتے ہیں ، کچھ تو ایسے جن کا سودی لین دین سے تعلق ہوتا ہے، جیسے سودلکھنا دینا یا لینا وغیرہ ان کی تنخواہ دو وجہ سے حرام ہے:

عمل کے ناجائز ہونے کی وجہ سے۔

بینک تنخواہ آمدنی سے دیتا ہے اور اس کی آمدنی حرام ہے۔

دوسرے وہ ملازمین جن کا سودی لین دین سے تعلق نہیں ، جیسے چوکیدار ، ڈرائیور وغیرہ ان کا عمل تو جائز ہے لیکن ان کو تنخواہ چوں کہ حرام آمدنی سے دی جاتی ہے ، جس کا انہیں علم بھی ہے ، اس لیے ان کے لیے بھی تنخواہ لینا جائز نہیں۔

باقی آپ کا یہ اشکال کہ بینک میں تنخواہ محنت پر ملتی ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ناجائز او رحرام محنت پر ملنے والی تنخواہ بھی حرام ہوتی ہے ، مثلاً شراب فروش، چور، ڈاکو، زانیہ، گانے بجانے والے، ان سب کو جو اجرت ملتی ہے وہ محنت ہی پر ملتی ہے، مگر ان کی محنت حرام کی ہے لہٰذا ان کو جو مال ملا ہے حرام شمار ہوگا یہی حکم بینک کی ملازمت کا ہے کیوں کہ بینک کی ملازمت کرنے والا سودی لین دین کرنے والوں کا معاون ہوتا ہے۔

بہتر صورت تو یہی ہے کہ اس حرام کمائی سے اپنے آپ کو بچایا جائے لیکن اگر کسی کا روز گار نہیں او ربالکل فقروفاقہ کی حالت ہے او ربینک کی ملازمت کے علاوہ کوئی اور ملازمت بھی میسرنہیں ، تو ایسی صورت میں آپ بقدر ضرورت بینک کی ملازمت کر نے کی گنجائش، مگر اس ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے لیے حلال روز گار کی تلاش کریں اور بینک کی ملازمت پر توبہ واستغفار کریں، جب دوسرا کوئی حلال روز گار مل جائے تو بینک کی نوکری کو فوراً چھوڑ دیں۔

نیز، اگر بالکل مجبوری کی حالت نہیں ہے تو ایسی صورت میں بینک کی نوکری کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی