بیماری کی وجہ سے نذر کے روزے نہ رکھنے کی صورت میں فدیہ ادا کرنا

Darul Ifta

 بیماری کی وجہ سے نذر کے روزے نہ رکھنے کی صورت میں فدیہ ادا کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت نے کسی حادثہ کے وقت منت مانی کہ اگر حادثے میں خیر ہو گئی تو ایک سال کے روزے رکھوں گی، اب اﷲ نے خیر کی اور حادثہ سے بچ گئے، منت ماننے والی عورت عرصہ سے بیمار ہے، روزوں کی استطاعت نہیں رکھتی، کیا وہ روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے؟ اگر دے سکتی ہے تو فدیہ کتنا ہو گا؟ اوراگر کچھ روزے رکھے اور کچھ روزوں کے بدلے فدیہ دے ، ایسا کرسکتی ہے؟

جواب

نذر کے روزوں کا حکم رمضان کے روزوں کی طرح ہے۔ یہ روزے منت ماننے والے کے ذمہ واجب ہیں، اب جب کہ پورے ایک سال کے روزوں کی منت مانی ہے تو سال بھر کے روزے رکھنے ہوں گے،جب کسی خاص سال کا تعین نہ کیا ہوا اور نہ ہی لگاتار بغیر چھوڑے روزے رکھنے کی شرط لگائی ہو، تو بارہ ماہ کے روزے رکھنے ذمہ میں واجب ہوں گے،  خواہ لگاتاررکھے خواہ وقفہ وقفہ سے رکھے۔ البتہ ماہ رمضان کے روزے نذر کے مہینوں میں منہانہیں ہوں گے، کیوں کہ ماہ رمضان کے روزے رکھنا خود فرض ہیں، اسی طرح سال میں جن دنوں میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے( عید الفطر اور عید الأضحی اور اس کے بعد ایام تشریق کے تین دن)،تو ان پانچ دنوں کی تعداد بھی دوسرے دنوں کے روزوں سے پوری کرے اور ان (پانچ )دنوں میں روزے نہ رکھے۔
اس تفصیل کے بعد اب یہ جاننا چاہیے کہ جس خاتون نے سال بھر کے روزے کی منت مانی ہے، وہ بیماری سے صحت یابی کے بعد ان روزں کو رکھیں، یعنی جب بھی استطاعت ہو اس وقت رکھیں،فی الفور ان پر یہ فرض نہیں ہے جب کہ وہ اس کی استطاعت نہ رکھتی ہوں۔ لہٰذا جب اور جتنے روزے رکھنے کی استطاعت انہیں ہو، اتنے روزے رکھتی رہیں او رجتنے روزے باقی رہ جائیں ،مرتے وقت اس کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کر دیں،نیز ورثاء کو ان کے مال میں سے وراثت کی تقسیم سے قبل فدیہ کی رقم ادا کرنی ہو گی ،فدیہ کی رقم ایک دن کے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہےاور فدیہ کی مقدار فطرہ کی رقم کے برابر یعنی پونے دوسیر ہے۔
قال ﷲ تبارک وتعالیٰ:«وَلْیُوفُوا نُذُورَہُم».(سورۃ الحج:٢٩)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:«من نذر أن یطیع اللہ فلیطعہ، ومن نذر أن یعصیہ فلا یعصہ».(صحیح البخاري،کتاب الأیمان والنذور،باب النذر فیما لا یملک معصیۃ: ٢/٩٩١، قدیمی)
''ولو نذر صوم الأیام المنہیۃ أو صوم ہذہ السنۃ صح مطلقا علی المختار''.(الدر المختار، کتاب الصوم، فصل في العوارض المبیحۃ لعدم الصوم: ٢/٤٣٣، سعید)
’’وقضوا لزوما ما قدروا بلا فدیۃ و بلا ولاء......فإن ماتوا فیہ أي: في ذلک العذر فلا تجب علیہم الوصیۃ بالفدیۃ لعدم إدراکہم عدۃ من أیام أخر......وفدی لزوما عنہ أي:عن المیت ولیہ...... کالفطرۃ قدرا بعد قدرتہ علیہ...... وفوتہ...... بوصیتہ من الثلث......وإن لم یوص وتبرع ولیہ بہ جاز إن شاء اللّٰہ ویکون الثواب للولي.اختیار‘‘.(الدر المختار مع الرد، کتاب الصوم،فصل في العوارض المبیحۃ لعدم الصوم: ٢/٤٢٣۔٤٢٥،سعید) .فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer