کیا نرینہ بالغ اولاد کا خرچہ والد پر لازم ہے

Darul Ifta mix

کیا نرینہ بالغ اولاد کا خرچہ والد پر لازم ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ  میرا ایک بیٹا ہے زید جس کی عمر   اب  ۱۹ سال گیارہ ماہ ہے، اور اس کا نمبر میری اولاد میں تیسرا ہے ، اس سے بڑے میرے دو بیٹے  اوربھی  ہیں ، جن کی عمر بالترتیب ۲۲ اور ۲۴ سال ہے،میرے اس بیٹے کو شادی کی جلدی تھی ، ہم نے اس کو سمجھایا کہ تم سے بڑے اور بھی ہیں ، لیکن وہ نہیں مانا ، لہذا ہم نے اس کی خواہش  کو مدنظر رکھتے ہوئے  اس کے رشتے کا بندوبست کیا اور پھر منگنی اور ۱۴ فروری  ۲۰۲۲ کو نکاح بھی کروادیا ، لیکن رخصتی کا وقت بڑوں میں دو سال بعد کا طے پایا ، جبکہ اس کے نکاح کو صرف چھ ماہ ہی گزرے  ہیں وہ مجھ پر اور سسرال والو ں پر رخصتی کے لیے دباؤ  ڈال رہا ہے ، اور پر یشان کرتا ہے، میں خود کرائے کے گھر میں رہتا ہوں میرے اس  بیٹے کے علاوہ چار بچے ہیں،وہ فرمان بردار ہیں ، لیکن اس بیٹے نے نافرمانی کی حد کر رکھی ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ فروری ۲۰۲۳ تک رخصتی کا ارادہ ملتوی کردو، اس دوران تمہارے پاس کچھ رقم بھی جمع ہوجائے گی، تو سہولت سے رخصتی کرلینا ، لیکن وہ نہیں مانتا ،کہتا ہے کہ میں گھر سے نکل جاؤں گا، اور کرائے کا گھر لے لوں گا ، لیکن رخصتی   کا  وقت ستمبر ۲۰۲۲ سے آگے نہیں کرسکتا ، اس کے بعد میرے جو بھی حالات ہوں اس کا میں خود ذمہ دار ہوں ، اور اپنی مرضی سے آپ کا گھر چھوڑ کر جارہا ہوں ۔

میرے بیٹے نے آج تک کمائی کا ایک پیسہ بھی نہ گھر پر نہ ماں باپ پر خرچ کیا ہے، آج تک کے معاملات میں جو خرچہ ہوا وہ میری جیب سے ہوا، جس  میں اس کی منگنی ، نکاح کے اخراجات بھی شامل ہیں ، اس صورتحال میں مزید اس کے معاملا ت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ، کیونکہ میرے اور بھی بچے ہیں، جن کی ذمہ داری میرے اوپر ہے، اور جو میری  فرماں برداری بھی کرتے ہیں۔

لہذا مفتی صاحب  میری رہنمائی فرمائیں  کہ موجودہ حالات میں میں اپنے اس بیٹے کے معاملا ت کا کس حد تک ذمہ دار ہوں  ، وہ اپنے  وقت پر رخصتی کےلیے اپنے ماں باپ اور گھر والوں کو چھوڑنے پر بھی آمادہ ہے ، اس صورتحال میں میرا کیا کردار اور عمل ہونا چاہیے ، شریعت کے مطابق میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب 

بالغ  نرینہ اولاد جب کمانے پر  خود قادر ہو جائے، تو والد پر  ان کی کوئی  ذمہ داری لازم  نہیں  ہوتی ،لہذا صورت مسئولہ میں  آپ  پر آپ کے بیٹے کی ذمہ داری  عائد نہیں  ہے،اور اب چونکہ  وہ خود کمانے پر قادر ہے،اور اپنی بیوی کو  نان و نفقہ اور رہائش کے انتطام پر بھی راضی  ہے،تو آپ اس کے  لئے رخصتی کا بندوبست کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ   جائے،نیز اولاد پر ہر حال  میں  لازم ہے کہ  ہر جائز کام میں والدین کی اطاعت کرےاور ان کے  ساتھ حسن سلوک  کا معاملہ کرے اور نا فر مانی سے بچیں۔

لما في الرد:

    (قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي، ثم طفل ح عن النهر، (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي: يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى :{أو الطفل الذين لم يظهروا} ۔۔۔۔(قوله: الفقير) أي: إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة؛ ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية،قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول: تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا، ولا ينافيه قولهم: بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اهـ أي: الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم: "لأن المستأجر يخلو بها"، وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا.(كتاب الطلاق،باب النفقة،5/345،ط:رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/216