بس ڈرائیوروں کامخصوص ہوٹلوں پرگاڑی روکنا اور مفت کھانا کھانا

بس ڈرائیوروں کامخصوص ہوٹلوں پرگاڑی روکنا اور مفت کھانا کھانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ڈرائیور لوگ ہیں سفر میں  نما زاور کھانے کے لیے کسی ہوٹل  پر کھڑے ہوتے ہیں تو ہوٹل والے ہم ڈرا ئیور ں کوکھانا مفت دیتے ہیں   اور تحفہ وغیرہ بھی دیتے ہیں،اس لیے کہ سواریوں سے انہیں بہت زیادہ نفع مل جاتا ہے ،کیونکہ سواریوں پر وہ چیزیں مہنگی قیمت میں بیچتے ہیں ،بعض حضرات نے  کہا کہ یہ کھانا اور یہ ہدیہ آ  پ کے لیے درست نہیں یہ رشوت ہے ،آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ فعل اور یہ کھانا وغیرہ ہمارے لیے شرعا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ڈرائیور حضرات سفر کے دوران کسی ہوٹل پر کھانے کے لیے  رک جاتے ہیں ،  تو ہوٹل والے اگر معاہدے کی وجہ سے بس  کے عملہ کو مفت کھانا ، تحائف وغیرہ دیتے ہیں ، تاکہ مسافروں پر مہنگی قیمت میں چیزیں  بیچ کر اس کھانے کا خرچہ وصول کیا جائے ، تو ہوٹل والوں کی طرف سے فراہم کردہ کھانا رشو ت کہلائے گا ، اور رشوت دینا اور لینا دونوں حرام ہیں ۔

البتہ اگر ہوٹل والے بغیر معاہدے کے بس کے عملہ کو مفت کھانا ، تحائف وغیرہ رغبت پیدا کرنے کے لیے  دیتے ہیں تاکہ سفر کے دوران آئندہ گا ڑی ہمارے ہوٹل پر روک لیں ، اور مسافروں سےہمیں نفع حاصل ہوجائے ،تو ہوٹل والوں کی طرف سے فراہم کردہ کھانا تبرع اور احسان کی وجہ جائز ہے ۔

لما فی الشامیہ :

"قولہ (اخذ القضاء برشوۃ)....الرشوۃ بالکسر:مایعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحمله مایرید...وفی الاقضیۃ قسم الھدیۃ وجعل ھذا من اقسامھا فقال : حلال من الجانبیں کاالاھداء للتودد وحرام منھما کالاھداء لیعینہ علی الظلم وحرام علی الآخذ فقط ۔۔۔ھذا اذا کان فیہ شرط ، اما اذا کان بلا شرط لکن یعلم یقینا انہ انما یھدی لیعینہ عند السلطان فمشایخنا علی انہ لاباس بہ ،ولوقضیٰ حاجتہ  بلا شرط ولا طمع فاھدی الیہ بعد ذالک فھو حلال لاباس بہ"( کتاب القضاء ، مطلب :فی الکلام  علی الرشوۃ والھدیہ ۸/۴۲ رشیدیہ)

وفی البحر:

"وذکر الاقطع ان الفرق بین الھدیۃ والرشوۃ ان الرشوۃ ما یعطیہ بشرط ان یعینہ والھدیہ لا شرط معھا اھ۔۔ واما الحلال من الجانبین فھو الاھد اء للتودد والمحبۃ کما صرحوا بہ ولیس ھو من الرشوۃ لما عملت"(کتاب القضاء ۶/۴۴۱۰.ط : رشیدیہ)

وفی مجمع الزوائد :

وعن  عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ((الراشی والمرتشی فی النار )) (کتاب الاحکام ، باب فی الرشا ۴/۲۵۷۔ط دار الکتب العلمیہ ۔ بیروت لبنان )

 وفی فیض القدیر :

"الراشی والمرتشی فی النار...الفرق بین الرشوۃ والھدیۃ ان الراشی یقصد بھا التوصل الی ابطال حق او تحقیق باطل وھو الملعون فی الخبر فان رشی لدفع ظلم اختص المرتشی وجدہ باللعینہ والمھدی یقصد استجلاب المودۃ ومن کلامھم البداطیل تنصر (فصل فی المحلی ٰ بال من ھذا الحرف : رقم الحدیث ، ۴۴۹۰،۵/۸۱ط؛دار الحدیث ، القاھرہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 154/195