بسنت کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت

بسنت کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ بسنت کی شرعی حیثیت کیا ہے، جو افراد بسنت مناتے ہیں ان کے لیے از روئے شرع کیا حکم ہے ؟ بسنت پرپتنگ اڑانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جو افراد پتنگ اڑاتے اور بسنت مناتے ہوئے (چھت وغیرہ سے گر کر) انتقال کر جائیں ان کا از روئے شرع کیا حکم ہے؟ اسی طرح جو افراد پتنگ کی ڈور کا شکار ہو کر ( گردن پر ڈور پھر جانے یا کرنٹ وغیرہ یا کسی بھی حادثہ کی بناء پر) انتقال کر جائیں ان کا از روئے شرع کیا حکم ہے ؟ کیا وہ لوگ شہید کے زمرے میں آتے ہیں ؟ اور جن افراد کی لاپرواہی کے سبب یہ حادثہ پیش آیا ہے ازروئے شرع ( اس وقت) ان کی کیا سزا ہے؟ جو لوگ اس (بسنت) کی سرپرستی کرتے ہیں ان کا شرعی حکم کیا ہے؟ گورنمنٹ کو اس موقع پر کیا فرائض انجام دینے چاہئیں؟از راہ کرم تفصیلی جوابات مع حوالہ جات تحریر فرما کر ممنون ومشکور فرمائیں، عین نوازش ہو گی۔

جواب

بسنت ہندو دھرم کا مخصوص تہوار ہے، جو ہزاروں سال سے اُن کی عید کے طور پر معروف چلا آرہا ہے، اس دن اِن کے ہاں طرح طرح کے کھانے پکاکربرہمنوں کوکھلائے جاتے تھے،مستند مؤرخ وریاضی دان ابوریحان البیرونی کہتے ہیں:”اسی مہینے ( یعنی بیساکھ) میں استواء ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے، حساب سے اس وقت کا پتہ لگا کر اس دن عید کرتے اور برہمنوں کو کھلاتے ہیں ۔”بہار کے پہلے ہفتے جب کھیتوں میں سرسوں کے پیلے پھول لہرانے لگتے ہیں تو یہ لوگ زرد کپڑے پہنتے ہیں ، پیلے چاول کھاتے ہیں ، بھنگڑا ناچ ہوتا ہے، یہ تہوار مناکر اپنی دیوی”سرسوتی” اور دوسری دیویوں اور دیوتاؤں کو یہ لوگ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

پہلے پہل تو یہ تہوار غیر اہم اور کم مقبول رہا، اسے صرف پنجاب، اترپردیش او رمدراس کے چند غریب ہندو مناتے تھے، لیکن اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس کے بعد یہ تہوار عام ہوتا گیا،اورنگ زیب کے دور میں ” حقیقت رائے” نامی ایک ہندو لڑکے نے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملہ کیا، جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا، قاضی نے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی،” حقیقت رائے” پھانسی پاکرہندوؤں کامذہبی ہیرو بن گیا،ہندو اس گستاخ رسول کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے ، مگر اسلامی حکومت میں کھل کر ایسا کرنا اُن کے لیے ناممکن تھا، لہٰذاانہوں نے یہ تدبیر کی کہ اس کی سمادھی پر بسنت کا میلہ منانا شروع کر دیا اور پہلی پتنگ بھی اسی کی سمادھی پر اڑائی گئی اس لڑکے کو موت کی سزا اتفاق سے بسنت پنجمی کے دن دی گئی تھی، اس لیے کسی کو یہ شبہ بھی نہ گزرا کہ ہندو اس میلے کی آڑ میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟چنانچہ ان بدباطنوں نے مسلمانوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر توہین رسالت کی یاد گار کے طور پر اسے جوش وخروش سے منانا شروع کر دیا، بلکہ اسے اتنا فروغ دیا کہ مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں آگئے او رپوری طرح اس جال میں پھنس گئے،مذکورہ بالاتفصیل سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ:
۱۔ بسنت ہندوؤں کا ایک مذہبی تہوار ہے، مسلمانوں کے لیے اس تہوار کو منانا، اس میں بسنتی کپڑے پہننا، بسنتی پکوان بنانا او رپتنگ اڑانا وغیرہ سب خلافِ شریعت اور ناجائز ہے۔

۲۔مسلمانوں کوسوچنا چاہیے کہ بسنت کا نام نہادتہوار بہت سے مفاسد، گناہوں، جانی ومالی نقصانات اور ناگفتنی باتوں پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گستاخِ رسول کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے ، سردار دو جہاں رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم او رجگر گوشہ رسول حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والے ناپاک کتھری لونڈے کی یاد میں ماحول پر زردی پھیلا کر خود کو شفاعت نبوی سے محروم کر رہے ہیں!!!

۳۔ پتنگ اڑانا تو ویسے بھی فضول خرچی، شیطانی کام، آلہئ علم کی بے حرمتی ، دوسروں کو اذیت ، بے حجابی کا ذریعہ ، مال وجان کے ضیاع کے اندیشہ او ردیگر بہت سے مفاسد کی بناء پر ناجائز ہے او رپھر بسنت پر پتنگ اڑانا اس کی قباحت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے ۔

۴۔بسنت مناتے ہوئے جوافراد انتقال کر جائیں تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اﷲ رب العزت کی نافرمانی کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔ بسنت منانے والوں کو حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کا یہ قول بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انہوں نے فرمایا کہ :” اگر غیروں کی نقالی میں ان کا تہوار مناتے ہوئے کوئی انتقال کر گیا تو قیامت کے روز انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔”
اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم گستاخانِ رسول کی صف میں کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں یاہمیں اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت مطلوب ہے؟!

۵۔بسنت منانے والوں کیوجہ سے دیگر بے گناہ افراد جو ایکسیڈنٹ یا کرنٹ سے جل کر مرجائیں تو انہیں شہیدوں کا ثواب ملے گا اورجوڈور کا شکار ہو کر مرا اسے اخروی شہادت نصیب ہو گی یا نہیں؟تو امید ہے کہ اس ناگہانی او رسخت موت کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے ثواب سے محروم نہیں کریں گے۔

۶۔اگر بسنت منانے والے کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا کہ اس کی ڈور سے کسی کی گردن کٹ گئی، تو اول تو بسنت منانے والا بے احتیاطی کی وجہ سے بہت سخت گنہگار ہو گا، اس پر توبہ واستغفار لازم ہے، دوم اس پر کفارہ لازم ہے یعنیمسلمان کا غلام آزاد کرنا، اس کی قدرت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے اور سوم اس کے قبیلے والوں پر دیت لازم ہوگی۔

۷۔بسنت کی سرپرستی کرنا بھی ناجائز ہے ، ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اُن کی سرپرستی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جائے او راس غلط رسم کا سدّ باب کیا جائے۔

۸۔بسنت ایک فضول او رغیر اسلامی تہوار ہے، سالہا سال سے اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک میں سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے ، جب کہ شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دنیوی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی ادنی شعور رکھنے والا اسے درست نہیں کہہ سکتا، اس تہوار میں بے شمار بحرانوں سے دو چار اس ملک کے عوام ہزاروں لاکھوں روپے اس رسم کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ، چھتوں سے گر کر اور فائرنگ کی زد میں آکر کس قدر قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں ؟ ! بلکہ اب تو ہوٹلوں میں غیر ملکیوں کے ساتھ مخلوط اجتماعات بھی ہو رہے ہیں، جو ہمارے ملک میں فحاشی اور عریانی کے فروغ کا سبب ہیں اور اس طرح یہ تہوار ہماری اخلاقی اقدار کو بھی پامال کر رہا ہے،اس اجتماعی حرام فعل پر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پابندی لگائے اور والدین پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اس شیطانی کام سے روکیں اور علمائے کرام او راہل قلم حضرات اس رسم بد کے خلاف آواز اٹھائیں او رعوام کو اس مہلک رسم سے بچانے کی پوری کوشش کریں،ورنہ انجانےمیں مسلمان ” محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم” کے جہنمی گستاخ کی یاد میں یہ تہوار بڑے زور وشور سے مناتے رہیں گے۔

اسلام دین فطرت ہے،آخر میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اس میں فطرت کے تقاضوں کو دبایا نہیں گیا، بلکہ جائز حدود میں رہتے ہوئے اُن کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، ایسی تفریح جس سے روح کی فرحت، جسم کو صحت اور طاقت، طبیعت میں نشاط وچستی او رمیدانِ جہاد میں مہارت پیدا ہوتی ہو وہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ شرعاًمطلوب بھی ہے، اسی لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم گھوڑدوڑ تلوار بازی اور تیر اندازی کی ترغیب دیا کرتے تھے،لیکن جن کھیلوں میں شریعت کے تقاضوں اور حد بندیوں کو پامال کیا جائے یا اُن کا کوئی مقصد ہی نہ ہو، محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے تو شریعت ان کی اجازت نہیں دیتی ، اسلام تنگ دلی ، مایوسی اور رہبانیت کا مذہب نہیں ہے اس میں انسان کے جائزطبعی تقاضوں کی تکمیل کا پورا پورا لحاظ رکھاگیا ہے،اسلام میں انسانی جذبات کے اظہار کے مواقع بھی ہیں او رخوشی کے تہوار بھی لیکن جوکچھ بھی ہے اس کے کچھ اصول اور ضوابط ہیں ، اسلام مسلمان کو بے لگام نہیں چھوڑ تاکہ وہ تفریحِ طبع کے نام پر جس وادی میں چاہے مُنہ مارے؛لہٰذا ایسی مکمل اور جامع تعلیمات کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیروں کی تہذیب اور اطوار کی نقل کریں اور ان کے تہواروں کو منائیں ، زندہ قومیں دوسری اقوام سے تہوار مستعار نہیں لیا کرتیں۔فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 80/384