ایک ہی شخص کو وکیل بالقبض اور وکیل بالبیع بنانے کا حکم

ایک ہی شخص کو وکیل بالقبض اور وکیل بالبیع بنانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور عمر  بیوپاری ہیں،آپس میں بیع کرتے ہیں، زید نے پنجاب میں ایک گائے خریدی ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی ، جبکہ عمر و سندھ  میں تھا  اور اس نے زید کو کال کی کہ یہ گائے میں خرید رہا ہوں، آپ سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے کی دس ہزار روپے نفع کے ساتھ  ادھار پر،عمرو نے دیکھا بھی نہیں ہے،اور نہ ہی قبضہ ہوا ہے، پھر عمرو نے کال کی کہ اس کو بیچ دو اور رقم مجھے دو، زید نے گائے بیچ دی ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی فروخت ہوئی اور رقم عمرو کو بھیج دی، اب اس بیع میں زید کو جو دس ہزار روپے نفع ہوا،یہ اس کے لیے حلال ہے یا نہیں؟ اور ان کی بیع ہوگئی ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئلہ اگر مبنی بر حقیقت ہے ، تو زید نے عمر و  کو جو گائے  ایک لاکھ تیس ہزار روہے (/-130000) کی ادھار پر بیچی ہے، اس کا یہ بیچنا  درست ہے ،  لہذا وہ گائے عمرو  کی ہوگئي اور  زید کے لیے   عمرو پر  ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا دین ثابت ہو گیا ، چنانچہ  جب بیع تام ہوگئي تو زید  کے لیے عمر و سے دس ہزار  روپے   کا نفع  لینا بھی درست ہو گیا ،۔

اس کے بعد عمرو  نے زید کو  اسی  گائے کے بیچنے کا وکیل بنایا  کہ اس گائے  کو میری طرف  سے بیچ دو ، یہ معاملہ درست نہیں ، البتہ  اس کی جائز صورت یہ بن سکتی ہے کہ عمرو  زید  کے علاوہ  کسی اور قبضے  کا وکیل بنائے ، وہ دوسرا شخص اس گائے  کو زید سے قبضہ  کرے  اور عمرو زید کو وکیل بالبیع بنائے ، پھر زید اس گائے  کو آگے بیچ دے ۔

لما في الهندية:

من حكم المبيع إذا كان منقولًا أن لا يجوز بيعه قبل القبض. (كتاب البيوع، الفصل الثالث: في معرفة المبيع: 3/13، دار الفكر)

وفي البدائع: والرقيق على قول أبي حنيفة: لا يجوز بيعه قبل القبض إن كان منقولًا. (كتاب البيوع، فصل: وأما شرائط الصحة فأنواع: 5/181، دار الكتاب).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/45،47