ایسی لڑکی سے نکاح کرنا جو مخلوط نظام میں رہ کر کام کرنا چاہتی ہے

Darul Ifta mix

ایسی لڑکی سے نکاح کرنا جو مخلوط نظام میں رہ کر کام کرنا چاہتی ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید عالم ہے اور اس کا ایک لڑکی کے ساتھ رشتہ طے پایا ہے وہ لڑکی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئی ہے ، اور جس شعبے سے  متعلق  اس نے تعلیم حاصل کی ہے ، وہ زیادہ تر عورتوں کے متعلق ہے اور ہسپتالوں میں آج کل مخلوط نظام ہے  جہاں عورتیں کام کرتی  ہیں  وہاں مرد حضرات بھی کام کرتے ہیں ، اور وہ لڑکی اپنے شعبے میں کام کرنا چاہتی  ہے ،آیا ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی روشنی میں اس لڑکی کو کام کرنے کی اجازت ہے؟اور اگراجازت نہیں تو کیا  زید کا اسکے ساتھ نکاح کرنا  درست ہے ؟  جبکہ وہ لڑکی کام کرنے کے لئےبضد ہوکہ وہ ہر صورت میں کام کرے گی ۔

جواب 

صورت مسئولہ میں اگر وہ باپردہ کام کرتی ہے اور بے جااختلاط سے دور رہتی ہے تو کام کرنے کی گنجائش ہے ،اور اسے چاہیے کہ ایسی جگہ کام کرے جہاں مردوں سے اختلاط کی نوبت  نہ آئے یا بہت کم   آئے ،اور آپ کامذکورہ  لڑکی سے نکاح شرعا درست ہے ،لیکن نکاح کے رشتہ میں ذہنی ہم آہنگی بہت اہم ہے ، مزاجوں کی عدم موافقت  میں نکاح کے رشتہ کو برقرار رکھنا بعض اوقات مشکل ہوجاتاہے ۔

لما في الشامية:

(وَتُمْنَعُ) الْمَرْأَةُ الشَّابَّةُ (مِنْ كَشْفِ الْوَجْهِ بَيْنَ رِجَالٍ) لَا لِأَنَّهُ عَوْرَةٌ بَلْ (لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ) كَمَسِّهِ وَإِنْ أَمِنَ الشَّهْوَةَ......الخ .

(كتاب الصلاة ، مطلب :في سترالعورة ، 2/97،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

وَفِي الْأَشْبَاهِ: الْخَلْوَةُ بِالْأَجْنَبِيَّةِ حَرَامٌ إلَّا لِمُلَازَمَةِ مَدْيُونَة .....الخ.(كتاب الحضر وٍالاباحة ،فصل في النظروالمس ،9/607،ط:رشيدية )  

وفي البحر :

إن كان المجبوب قد جف ماؤه(الى قوله)اختلاط بالنساء ولأصح أنه لايحل لعمو م النصوص.(كتاب الكراهية، 8/358،ط:رشيدية)

وفى الدر مع الرد:

(سترعورته وَوُجُوبُهُ عَامٌّ) أَيْ فِي الصَّلَاةِ وَخَارِجِهَا (قَوْلُهُ وَلَوْ فِي الْخَلْوَةِ) أَيْ إذَا كَانَ خَارِجَ الصَّلَاةِ يَجِبُ السَّتْرُ بِحَضْرَةِ النَّاسِ إجْمَاعًا.(كتاب الصلاة ، مطلب :فى سترالعورة ،1/93،ط:رشيدية)

وفي البحر:

هو عقد يرد على ملك المتعة قصدا وهو سنة وعند التوقان واجب وينعقد بايجاب وقبول . (كتاب النكاح ، 3/136،ط:رشيدية) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 172/129