اپریل فول کی تاریخی وشرعی حیثیت

اپریل فول کی تاریخی وشرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اپریل فول کی تاریخی وشرعی حیثیت کیا ہے ؟ اپریل فول کا سہارا لیتے ہوئے جو لوگ جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کے لیے از روئے شرع کیا حکم ہے ؟ جو لوگ اپریل فول کا شکار ہو کر (صدمہ وغیر ہ کی وجہ سے)اگر خدانخوستہ انتقال فرما جائیں تو ان کا شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا وہ شہید کے زمرے میں آتے ہیں؟ جن افراد کے جھوٹ کے سبب حادثہ پیش آیا ان کی از روئے شرع کیا سزا ہے؟

جواب

یکم اپریل کو مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید کے شوق میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا اور دھوکا دے کر اسے پریشان کرنااور بیوقوف بنانا نہ صرف جائز بلکہ بہت بڑا کمال اور لائق تحسین سمجھا جاتا ہے ، یہ بیہودہ رسم”اپریل فول”کے نام سے مشہور ہے،سولہویں صدی عیسوی تک سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی ”وینس”(Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے ، اس دن جشن مسرت مناتے اور ہنسی مذاق کرتے، رفتہ رفتہ یہی ہنسی مذاق اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا۔

بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہوتی ہیں ، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اﷲ)قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے ، لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کر دیا۔

ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں یہودیوں اور رومیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا موجودہ نام نہاد انجیلوں میں بھی اس واقعہ کی تفصیلات موجود ہیں، اپریل فول کی رسم کا منشا ( نعوذ باﷲ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تضحیک ہے، جو شاید یہودیوں کی طرف سے اُن کی اذیت یاد دلانے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔

بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یکم جنوری سے سال شروع ہونے کے باوجود جو لوگ یکم اپریل کو سال منانے کا اہتمام کرتے تھے ، انہیں تماشہ بناتے ہوئے اُن سے دل لگی کے طور پر بے وقوف بنایا جانے لگا اور مختلف طریقوں سے جھوٹ بول کر انہیں تنگ کیا جانے لگا اور یوں اپریل فول کی ابتدا ہوئی۔

ایک وجہ یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ اس دن اسپین سے اسلامی خلافت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوا، مسلمانوں کا جلد صفایا کرنے کے لیے عیسائیوں کے بادشاہ”فرڈیننڈ” نے یہ چال چلی کہ مسلمانوں میں یہ اعلان کیا کہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک الگ اسلامی ریاست بسانا چاہتے ہیں ، جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں گے ، مسلمان اس فریب میں آکر اکٹھے ہوئے، اس نے انہیں بحری جہاز میں روانہ کر دیا اور پھر یہ جہاز اُس کے حکم پر غرق کر دیا گیا، اس پر عیسائی دنیا نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور یوں اپریل فول کی رسم مسلمانوں کے بے وقوف بنانے کو یاد دلانے کے لیے منائی جانے لگی،بہر صورت اس رسم کا تعلق کسی نہ کسی تو ہم پرستی، گستاخانہ نظرئیے یا واقعے سے جڑا ہوا ہے، غیروں کی نقالی کے علاوہ یہ رسم مندرجہ ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے:

۱۔جھوٹ بولنا۲۔دھوکا دینا۳۔ دوسرے کو اذیت پہنچانا، بسا اوقات اس سے دوسرا شخص جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،۴۔ایسے واقعے کی یاد منانا جس کی اصل تو ہم پرستی،تقدیر سے کفریہ مذاق، مسلمانوں کی تذلیل یا ایک جلیل القدر پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق ہے ۵۔ ایک کبیرہ گناہ کو حلال اور لائق تحسین سمجھا جاتا ہے، جس سے ایمان سلامت رہنا دشوار ہو جاتا ہے ،اگر کسی نے اس قسم کا تہوار منا کر دوسروں کا جانی یا مالی نقصان کیا تو وہ عنداﷲ اور عندالناس مجرم ہے ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شخص کو سخت سزا دے اور جو لوگ اپریل فول کا شکار ہو کر صدمے کی وجہ سے انتقال کر جائیں تو وہ دنیا کے اعتبار سے تو شہید نہیں،آخرت میں ثوابِ شہادت کے مستحق ہوں گے یانہیں؟تو علماء وفقہاء نے جو شہید اخروی کی اقسام ذکر کی ہیں ، اُن میں صدمہ سے انتقال کرنے والوں کا ذکر نہیں ملا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 80/384