امام کا ثناء، رکوع و سجدے میں جلدی کرنا

امام کا ثناء، رکوع و سجدے میں جلدی کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک امام تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد قرأت اتنی دیر میں شروع کر دے کہ اس میں مقیدیوں  کے لئے’’ثناء‘‘ سہولت کے ساتھ پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑھتا ہو، اسی وجہ سے مقتدی جلدی جلدی ثناء پڑھتے ہوں، یا صف میں کھڑے ہو کر قرأت امام شروع ہونے کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے ہوں، نیز وہ امام رکوع وسجدوں میں اتنی دیر ٹھہرتاہو کہ جس میں سہولت کے ساتھ تسبیحات تین دفعہ نہ پڑھی جا سکتی ہوں، یہی وجہ ہے کہ بعض مقتدی حضرات امام صاحب سے نالاں ہیں، صورت مسئولہ میں مذکورہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں امام کا اتنا جلدی کرنا کہ مقتدی ثناء نہ پڑھ سکیں، اسی طرح رکوع وسجدہ میں تین تین مرتبہ تسبیح نہ کہہ سکیں مکروہ ہے، امام کو مقتدیوں کی رعایت اس قدر کرنی چاہیےکہ وہ ثناء پڑھ سکیں، اور کم ازکم رکوع وسجدہ میں تین تین مرتبہ تسبیح کہہ سکیں۔
لما في سنن أبي داود:
’’عن عقبة بن عامر بمعناه زاد قال فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ركع قال سبحان ربى العظيم وبحمده ثلاثا وإذا سجد قال سبحان ربى الأعلى وبحمده ثلاثا‘‘.(كتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل في ركوعه وسجوده، رقم الحدیث:870، ص:184، دار السلام)
وفي رد المحتار:
’’وأما الثناء فهو سنة مقصودة لذاتها، وليس ثناء الامام ثناء للمؤتم، فإذا تركه يلزم ترك سنة مقصودة لذاتها للانصات الذي هو سنة تبعا‘‘. (كتاب الصلاة: 232/2، رشيدية)
وفي البحر الرائق:
’’وقد تقدم أنه سنة لرواية الجماعة أنه كان صلى الله عليه وسلم يقوله إذا افتتح الصلاة، أطلقه فأفاد أنه يأتي به كل مصل إماما كان أو مأموما أو منفردا لكن قالوا المسبوق لا يأتي به إذا كان الإمام يجهر بالقراءة للاستماع‘‘.(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 540/1، رشيدية)
وفي رد المحتار:
’’وفي المنية : ويكره للإمام أن يعجلهم عن إكمال السنة.ونقل في الحلية عن عبد الله بن المبارك وإسحاق وإبراهيم والثوري أنه يستحب للإمام أن يسبح خمس تسبيحات ليدرك من خلفه الثلاث‘‘. (كتاب الصلاة، مطلب في إطالة الركوع للجائي: 243/2، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/163