اقامت کے وقت مقتدی کب کھڑے ہوں؟

Darul Ifta mix

اقامت کے وقت مقتدی کب کھڑے ہوں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِن مسائل کے بارے میں کہ مؤذن کی اقامت کے دوران سارے مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے، یعنی شروع سے کھڑا ہونا چاہیے یا ”حی علی الفلاح“ کے وقت، دونوں میں افضل کون سا ہے؟ مسئلے کی وضاحت کریں۔

جواب

اقامت نماز کے وقت امام اور مقتدی کس وقت کھڑے ہوں، شروع اقامت سے یا بعد میں مؤذن کے کسی خاص کلمہ یعنی”حی علی الفلاحپر؟‘ ‘اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اِس معاملے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رحضرات صحابہٴ کرام اور علماء سلف کا تعامل کیا رہا ہے؟

چناں چہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے:”إن الصلوٰة کانت تقام لرسول الله صلی الله علیہ وسلم، فیأخذ الناس مصافھم قبل أن یقوم النبي صلی الله علیہ وسلم مقامہ․“
ترجمہ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امامت کے لیے نماز کھڑی کی جاتی تھی اور لوگ آپ کے کھڑے ہونے سے پہلے اپنی اپنی جگہ صفوں میں لے لیتے تھے۔“ (کتاب الصلوٰة، باب متی یقوم الناس للصلاة، رقم:1369، ط: دارالسلام)

ابن شہاب سے مروی ہے کہ جس وقت مؤذن الله اکبر کہتا تھا تو لوگ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے تشریف لانے تک صفیں درست ہو جاتی تھیں۔ (فتح الباری، کتاب الأذان، باب متی یقوم الناس…2/153،ط: قدیمی)

ان مذکورہ بالا روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پہلے سے مسجد میں تشریف فرمانہ ہوتے، بلکہ گھر سے تشریف لاتے تھے، تو آپ کو دیکھتے ہی حضرت بلال رضی الله عنہ اقامت شروع کرتے اور سب صحابہ کرام شروع اقامت سے کھڑے ہو کر تعدیل صفوف کرتے تھے، آپ علیہ السلام نے اس کو منع نہیں فرمایا البتہ گھرمیں سے تشریف لانے سے پہلے اقامت کہنے اور لوگوں کے کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے وہ بھی از روئے شفقت ممانعت تھی۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے صفیں درست کرنے کے لیے لوگ متعین کر دیے تھے اور صفیں درست ہونے کی خبر جب تک نہ دی جاتی، تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے، (امام ترمذی رحمہ الله نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی الله عنہما بھی اس امر کااہتمام کرتے تھے) اور یہ اہتمام جبھی ہو سکتا ہے جب لوگ شروع اقامت سے کھڑے ہو جائیں۔

پھر مسئلہ مذکورہ آداب نماز میں سے ہے ، فرض یا واجب نہیں اور آداب کے متعلق درمختار میں ”فصل صفة الصلوٰة“ سے پہلے لکھا ہے:”ولھا آداب ترکھا لایوجب إساء ة ولا عتابا، کترک سنة الزوائد، وفعلہ أفضل“․
ترجمہ:نماز کے کچھ آداب ہیں، جن کے چھوڑنے سے گناہ نہیں ہوتا اور نہ ملامت ہوتی ہے۔ مثلاً سنن زوائد کو ترک کرنا، ہاں اس کا کرنا افضل ہے، البتہ حنفیہ کے مذہب کی تفصیل میں اس عبارت ” والقیام حین قیل حی علی الفلاح“یعنی حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہیے ،کی علت صاحب البحر الرائق نے یہ بیان فرمائی ”لأنہ أمر مستحب المسارعة إلیہ“ یعنی حی علی الفلاح “پر کھڑا ہونا اس لیے افضل ہے کہ لفظ حی علی الفلاح کھڑے ہونے کا امر ہے، اس لیے کھڑے ہونے کی طرف مسارعت کرنا چاہیے۔

اور علامہ طحطاوی نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کھڑے ہونے میں اس سے مزید تاخیر نہ کی جائے، اس سے پہلے کھڑے ہونے سے منع کرنا مقصد نہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عمل مبارک، حضرات خلفاء راشدین او رجمہور صحابہ وتابعین رضی الله عنہم اجمعین کا تعامل اس مسئلے میں شاہد ہے کہ اُن حضرات کا معمول ودستور یہی تھا کہ امام جب مسجد میں آجاتے تو اقامت کی ابتداء ہی سے سب لوگ کھڑے ہو کر صفوف کی درستی کر لیں، نیز ابتداء میں کھڑے ہونے میں واجب (تسویہ صفوف) کی رعایت جب کہ بعد میں کھڑے ہونے میں مستحب ( قیام عند حی علی الفلاح) کی رعایت ہوتی ہے ، واجب کی رعایت کرکے مستحب کو ترک کرنا ضروری ہے، چوں کہ آج کل اہل بدعت کا اس مستحب پر شدید اصرار ہے ، لہٰذا اولیٰ اور افضل یہی ہے کہ ابتداء اقامت میں کھڑے ہونے کا معمول بنایا جائے اور اس کے بعد بھی کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔

مزید تحقیق وتشفی کے لیے مفتی محمد شفیع رحمہ الله کے رسالے ”رفع الملامہ عن القیام عند أول الإقامہ (جواہر الفقہ، جلد دوم، ص:425 تا442) کا مطالعہ کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی