اعتكاف مسنون میں باہر کام سے جانے کی نیت کرنا

Darul Ifta

اعتكاف  مسنون  میں باہر کام سے جانے کی نیت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اعتكاف مسنون سے پہلے دوران اعتکاف کسی کام پر جانے کی نیت کرنا درست ہے یا نہیں؟ اور اس کا اعتکاف مسنون رہے گا یا نہیں؟ جبکہ فتاوی محمودیہ میں بظاہر دو(٢) مسئلوں میں اختلاف نظر آتا ہے، جلد :١٠،ص:٢٢٤پر هے؟
’’سوال:اگر اعتكاف كرنے سے قبل یہ نیت کر لے کہ رمضان کی فلاں تاریخ کو ایک روز یا ایک شب کے لیے باہر سفر میں جاؤنگا۔جواب :اس طرح اعتکاف مسنون ادا نہیں ہوگا، اور باہر نکلنے سے اعتکاف باقی نہیں رہے گا‘‘۔
جبکہ ص:۲۳۳ پر ایک سوال کے جواب میں ہے:’’ہاں! اگر بوقت نذر ایسی جگہ جانے کی نیت کر لیتا ہے تو پھر اجازت ہے‘‘………اور اعتکاف مسنون کو بھی بعض فقہاء نے واجب کیساتھ ملحق کیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اعتکاف  مسنون میں دوران اعتکاف کسی کا م پر جانے کی نیت درست نہیں، اور دوران اعتکاف کام پر جانے کے لیے نکلنے سے اعتکاف باقی نہیں رہتا، بلکہ فاسد ہوجاتا ہے، البتہ نذر اعتکاف میں کسی کام پرجانے کی نیت درست ہے، باقی فقہاء کرام رحمہم اللہ نے جو مسنون اعتکاف کو واجب کے ساتھ ملحق کیا ہے وہ لزوم میں ہے کہ مسنون اعتکاف شروع کرنے سے اس کا پورا کرنا واجب اور لازم ہے، جس طرح منذور (نذر) کا پورا  کرنا واجب ہوتا ہے، نہ یہ کہ مسنون میں بھی واجب بالنذر کی طرح نیت کرنے سے باہر نکل سکتا ہے۔
وفي التنوير مع الدر والرد:
”(وحرم عليه الخروج إلا لحاجة الإنسان، أو الجمعة…… ولو خرج ساعة بلا عذر فسد)
قوله:(حرم عليه)؛ لأنه إبطال للعبادة، وهو حرام، لقوله تعالى: ﴿ولا تبطلوا أعمالكم﴾ (أما النفل) أي: الشامل للسنة المؤكدة…… مفاده التقدير أيضا اللزوم بالشروع…… وعلى كل فينظر من بحث ابن العام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع……“ (كتاب الصوم:٣/٥٠٠، رشيدية).
لما في الهندية:
”ولا يخرج لعيادة المريض، كذا في ”البحر الرائق“ ولو خرج لجنازة يفسد اعتكافه، وكذا الصلاتها ولو تعينت عليه، أو لإنجاء العريق، أو الحريق، أو الجهاد…… وكذا خرج ساعة بعدز المرض فسد اعتكافه، هكذا في ”الطهيرية“ ولو شرط وقت النذر الا لتزام أن يخرج إلى عيادة المريض، وصلاة الجنازة، وحضور مجلس العلم يجوز له ذلك كذا في ”التتارخانية“. (كتاب الصوم:١/٢٧٦، دارالفكر)
وفي النتف في الفتاوى:
”قال ويجوز له أن يخرج إلى ثلاثة أشياء إذا اشترط في عقد الاعتكاف:  أحدهما عيادة المريض، والثاني، اتباع الجنازة، والثالث: حضور مجلس العلم“. (مطلب في الاعتكاف:١٠٥، ادارة اسلاميات)
(وكذا في التتارخانية:کتاب الصوم،٣/٤٤٥، فاروقية)فقط.واللہ اعلم بالصواب
155/125

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer