اسٹیٹ ایجنسی کےکاروبارکا حکم

اسٹیٹ ایجنسی کےکاروبارکا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ اکثر وبیشتر اسٹیٹ ایجنسی والے کمیشن، فی صد کے حساب سے جائیداد کی خرید وفروخت کا کام کرتے ہیں،کیا کمیشن ، فی صد کے حساب سے یہ کام کرنا جائز ہے یا نا جائز ہے؟

۲۔ مختلف لوگ اپنے پلاٹس ومکانات کو فروخت کرنے کے لیے آج کل جو قیمتیں نافذ کرتے ہیں، اس میں منافع بہت زیادہ ہوتا ہے، کیا ان لوگوں کی مقرر کردہ قیمتوں پر جائیداد کا کام کرنا، شریعت میں درست ہے یا ٹھیک نہیں ہے؟

۳۔ جائیداد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں اسلام میں کیا حکم ہے ؟براہِ مہربانی قرآن وسنت کے عین مطابق جوابات عنایت فرما دیجیے۔

جواب

۱۔ اسٹیٹ ایجنٹ، مالک اور گاہک کے درمیان واسطہ بنتا ہے اور اس کو ملنے والا کمیشن اس محنت کی اجرت ہے جو وہ سوداکرانے کے لیے سرانجام دیتا ہے۔ یہ اس کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ کہ اس میں دھوکا وفریب نہ ہو،فی صد کے حساب سے کمیشن مقرر کرنا جائز ہے۔

۲۔ درست ہے، لیکن کسی کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھائیں۔

۳۔ شریعت کی طرف سے کسی چیز کی قیمت کی کوئی خاص تحدید نہیں،طلب ورسید کی بنا پر قیمتیں جیسی طے ہوں، اس کا اعتبار کرلیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی چیز کی قیمت حد سے گزر جائے، تب حکومت وقت کو مداخلت کرکے قیمتیں مناسب حد کے اندر رکھنے کا حکم ہے۔

''قال في البزاریۃ:إجارۃ السمسار،والمنادي،والحمامي،والصکاک،ومالایقدرفیہ الوقت ولا العمل تجوز؛لما کان للناس بہ حاجۃ،ویطیب الأجرالمأخوذ لو قدّرأجر المثل''.

''قال في التاترخانیۃ:وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم، وفي الحاوي:سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار،فقال: أرجو أنہ أنہ لا بأس بہ،وإن کان في الأصل فاسداً؛ لکثرۃ التعامل،وکثیر من ھذا غیر جائز فجوزوہ؛لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام،وعنہ قال: رأیت ابن شجاع یقاطع نساجاً ینسج لہ ثیابا في کل سنۃ''.(رد المحتار،کتاب الإجارۃ،باب الإجارۃ الفاسدۃ: ٩/٧٨-١٠٧، رشیدیۃ)

''عن أنس بن مالک رضي اﷲ عنہ قال: غلا السعر علی عھد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فقالوا:یارسول اﷲ! قد غلا السعرفسعّر لنا،فقال:إن اﷲ ھو المسعّر القابض الباسط الرازق''.(سنن ابن ماجہ، أبواب التجارات، باب من کرہ أن یسعر: ١٥٩، قدیمی)

''من اشتری شیأاً وأعلی في ثمنہ جاز''.(الھندیۃ، کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحۃ والتولیۃ:٣/١٦١، رشیدیۃ)

(ولا یسعّر حاکم) لقولہ علیہ السلام:''لا تسعّروا فإن اﷲ ھو المسعّر القابض الباسط الرازق''(إلّا إذا تعدی الأرباب عن القیمۃ تعدیا فاحشا فیسعر بمشورۃ أھل الرأی)۔۔۔۔أي لا بأس بالتسعیر حینئذ کما في الھدایۃ''.(الد رالمختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحۃ: ٦/٣٩٩، ٤٠٠، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی