اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں

Darul Ifta mix

اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ چند اصحاب نے یہ طے کیا ہے کہ ہم نے دین کا کام کرنا ہے اور رزق اﷲ نے اپنے ذمے لیا ہے ،لہٰذا مسجد میں ٹھہریں گے نہ کمائی کے لیے جائیں گے اور نہ اپنے بیو ی بچوں کے پاس جائیں گے کیونکہ ان کا رازق بھی اﷲ ہی ہے،اب اگر کھانا آئے گا تو کھالیں گے نہ آیا تو موت بھی اﷲ ہی بھیجے گا مر جائیں گے۔

۲۔  کیا کوئی آدمی اﷲ کے راستے میں سفر کرے اور توشہ ساتھ لے کر نہ جائے او رکہے کہ میں اﷲ کے بھروسہ پر چلتا ہوں، وہ رزق دینے کا وعدہ کرتا ہے، ساتھ توشہ لے کر جانا ضروری نہیں، تو یہ جائز ہو گا؟

۳۔  بعض کتب میں مذکور ہے کہ بعض لوگ خاصان حق ہوتے ہیں، جن کو اسباب معاش چھوڑنا جائز بلکہ اولیٰ ہوتا ہے، آیا یہ قرآن یا حدیث کے مفہوم سے ثابت ہے؟

جواب

قرآن کریم ایک مکمل دستو رحیات ہے، جس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام تعلیمات کو مکمل طور پر بیان کیا گیا ہے ، جہاں مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ نے  اپنے احکامات کا پابند کیا ہے وہاں ان کے اوپر طلبِ رزق حلال کو بھی لازمی قرار دیا ہے، قرآن کریم کی بے شمار آیات سے مفہوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے ہاتھوں سے کمانا چاہیے اور وہ اس بات کا مکلف ہے۔

مثلاً قرآن کریم میں حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ مذکور ہے، اﷲ تعالیٰ ان کو حکم دے رہے ہیں کہ کھجور کی ٹہنی کو ہلا دو تو تروتاز کھجوریں گریں گی ان اٹھا کر کھاؤ ”حالا نکہ  اﷲ تعالیٰ جب اس بات پر قادر تھے کہ بغیراسباب ( شوہر)کے بچہ کو پیدا فرما دیا تو ”کھجوروں کو گرا کر کھلانا ان کے لیے کوئی مشکل نہ تھا ،لیکن اس مقام پر ان کو اپنے ہاتھ سے حرکت دے کر کھانے کا حکم ملا تاکہ  ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے حاصل کرکے کھالیں۔ (الاختیار،ص:١٧١/٤)

قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ بھی مذکو رہے ان کو بھی اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے کا حکم تھا، حالاں کہ وہ ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں، ان کا تعلق براہ راست اﷲ تعالیٰ کی ذات سے تھا، انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے گئے ہوں اور نہ ہی کمانے کو اپنی قدر ومنزلت کے منافی جانا، قرآن کریم میں اس کا ذکر اس طرح ہے ''وعلمناہ صنعۃ لبوس'' یعنی وہ زرہ بنا کر بیچتے تھے او راس کے ذریعے سے گھر کے اخراجات مکمل فرماتے۔

اگر اس دنیائے فانی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں انبیاء کرام علیہم السلام او ران کے بعد صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں ہے اور نہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کے بعد کوئی اور افضل ہے، جب صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین باوجود اپنے یقین کامل تقوی ووفا شعاری، پابندی احکام الہی اور اطاعتِ خدا ورسول کے کسب وکمائی کوچھوڑ کر مساجد میں اس طرح نہیں ٹھہرے کہ کھانا آئے گا تو ہم کھائیں گے، نہیں آیا تو اﷲ کو موت بھی پسند ہے، مرجائیں گے اور نہ ہم اپنے بچوں کا خیال رکھیں گے ،تو اب کسی اور کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں۔

قرآن شریف میں ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو:(وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃ). (البقرہ) اس بنا پر اس طرح کا مرنا تو اپنے آپ کو قتل کرنے میں داخل ہے۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ اس امت کے سب سے افضل صحابی ہیں وہ باوجود یقین کامل کے کبھی مسجد میں جاکر اس طرح نہیں ٹھہرے بلکہ ان کے سامنے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات موجود تھے اور ان کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتے تھے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کا م کرنے والے تھے۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے،  اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا اور اﷲ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کا کمایا ہوا کھایا کرتے تھے۔
حدیث میں آتا ہے کہ لکڑیاں چُن چُن کے کما کر کھانا افضل اور بہتر ہے، دردر جاکر سوال کرنے اور دوسروں کی جیب پر نظر رکھنے سے۔(احادیث کا حوالہ۔ بخاری شریف جلد اول ،ص:٢٧٨)

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ''الا کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیۃ'' خبر دار! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے او رہرایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ جب مسجد میں قیام پذیر ہوں گے تو پھر ان ذمہ داریوں کو کون نبھائے گا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مخاطب کون ہو گا؟

ان فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان لوگوں کا یہ طرز عمل درست معلوم نہیں ہوتا، ان کو چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگ کر اسلامی طریقے پر اپنی زندگی گزاریں۔

۲۔  ارشادات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم واعمال صحابہ کرامؓ مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت ہیں، اسی میں ان کی فلاح ہے۔ اور اس میں نجات کا راز مضمر ہے۔

عبادت بدنیہ میں جہاد جیسی مشکل عبادت کوئی اور نہیں ہے اور جہاد اﷲ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین عمل ہے ،کیوں کہ اس کے اندر انسان کو اپنی محبوب ترین چیز (جان) کو اﷲ تعالیٰ کے سامنے نذرانے کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے ، جب اس مقدس عمل کے لیے صحابہ کرامؓ توشہ ساتھ لے گئے تو اس کے بعد آنے والے مسلمان کیسے اپنے آپ کو توشہ سے مستغنی کرسکتے ہیں؟ او ربغیر توشہ کے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھ توشہ لے لیا تو کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک نیک کام کی خطر ہجرت نہیں فرمائی تھی؟ کیا ان کو یقین نہیں تھا کہ اﷲ تعالیٰ رازق ہے؟ اور راستے میں کہیں سے کھانا مل جائے گا؟

اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غار حراء میں عبادت کے لیے جاتے تھے تو اپنے ساتھ توشہ لے جاتے تھے ( بخاری، جلد اول)

او رجب توشہ ختم ہوجاتا تو پھر گھر تشریف لاتے اور توشہ لے کر عبادت کے لیے تشریف لے جاتے، تو کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ عبادت نیک عمل نہیں تھی؟ خلاصہ یہ کہ انسان اسباب اختیار کرنے پر مامور ہے، اس کو اسباب کے تحت رہ کر کام کرنا چاہیے۔

۳۔  قرآن کریم میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کو اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طورطریقے پر چلنے کو کامیابی کی شرط قرار دیا گیا ہے، ان کی پیروی نہ کرنا باعث ناکامی ہے۔

اسباب معاش کو ترک کرنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں، ہاں اگر کسی کو اسباب معاش بغیر کمائی کے بھی مہیا ہوں تو ایسے شخص کے لیے ضروری نہیں ہے او رجو حقیقتاً متوکل ہو اور توکل کی ساری شرائط اس میں پائی جاتی ہوں تو اس کے لیے توکل کرنا ہاتھ کی کمائی سے بہتر ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توکل کی شرائط بہت سخت ہیں، ہر کوئی ان پر پورا نہیں اتر سکتا اور نہ ہی وہ شرائط فی زمانہ کسی میں پائی جاتی ہیں، بلکہ آج کل ایسے لوگ تقریباً معدوم ہوچکے ہیں، جن کی نیت اور نظرمحض خدا کے بھروسہ پر ہوتی ہے، مخلوق کی طرف نگاہ نہیں اٹھتی؛ اس لیے توکل کرنا ہرایرے غیرے کے بس کی بات نہیں ، نہ وہ  ہر کسی کے لیے جائز ہے،اسباب اختیار کرکے یقین کامل خدا کی ذات پر رکھتے ہوئے زندگی گزارنا چاہیے۔

قال اﷲ تعالیٰ:(فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ وَاذْکُرُوا اللَّہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُون).(الجمعۃ:١٠)

''عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِی أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ.''(بخاری:٥١٨/١، کتاب المناقب، قدیمی)

''عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَاکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَّالَ أَنفُسِہِمْ.'' (بخاری:٢٧٨/١، کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعلمہ بیدہ، قدیمی)

'' ومنھا التوکل، وھو أن یغلب علیہ الیقین حتی یفتر سعیہ فی جلب النافع ودفع المضار من قبل الأسباب ولکن یمشی علی ما سنہ اﷲ تعالی فی عبادہ من الإکاب من غیر اعتماد علیھا.

قال رسول اﷲ۔ صلی اﷲ علیہ وسلم۔: یدخل الجنۃ من امتی سعبون ألفا بغیر حساب ھم الذین لا یسترقون ولا یتطیرون، ولا یکتوون وعلی ربھم یتکلون. أقول: إنما وصفھم النبی۔ صلی اﷲ علیہ وسلم۔ بھذا إعلاما بأن أثر التوکل ترک الأسباب التی نھی الشرع عنھا لاترک الأسباب التی سنھا ﷲ تعالیٰ لعبادہ، وإنما دخلوا الجنۃ من غیر حساب؛ لأنہ لما استقر فی نفوسھم معنی التوکل أورث ذلک معنی ینفض عنھا سبیۃ الأعمال العاضۃ علیھا من حیث إنھم أیقنوا بأن لا مؤثر فی الوجود إلا القدرۃ الوجوبیۃ.'' (حجۃ اﷲ البالغۃ:٢٤٥/٢، التوکل من شعب الیقین، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی