ازواج مطہرات کی رخصتی دن میں ہوئی، یا رات میں اور اس کی شرعی حیثیت

ازواج مطہرات کی رخصتی دن میں ہوئی، یا رات میں اور اس کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ازواج مطہرات کی رخصتی رات میں ہوئی یا دن میں؟ اور لڑکی کی رخصتی دن میں کرنا سنت ہے یا رات میں؟ براہ مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے بعض کی رخصتی دن کو ہوئی اور بعض کی رخصتی رات کو، باقی رہا یہ مسئلہ کہ لڑکی کی رخصتی دن کو کرنا سنت ہے یا رات کو، تو اس میں کوئی تخصیص نہیں، بلکہ دن میں بھی مسنون ہے اور رات میں بھی مسنون ہے۔

لمافي فتح الباري لشرح الصحيح البخاري:

قوله: (باب البناء بالنهار بغير مركب ولا نيران) وأشار بقوله بالنهار إلى أن الدخول على الزوجة لا يختص بالليل. (كتاب النكاح، باب: 62، ج: 9، ص: 280، رقم: 5160، قديمي)

وفي شرح العلامة الزرقاني:

وكانت أم سلمة من أجمل الناس، وتزوّجها رسول الله صلي الله عليه وسلم في ليال بقين من شوّال من السنة النبي مات فيها أبو سلمة.(في ذكر زوجته أم سلمة أم المؤمنين: 4/402، دار الكتب العلمية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 176/38،39