اخبارات ورسائل کی خرید وفروخت کا حکم

اخبارات ورسائل کی خرید وفروخت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کیا اخبار فروشی کا کام شرعی نقطہ نگاہ سے درست ہے؟ کیا ایک مسلمان کے لیے اخبار، روزنامے اور ہفتہ واری یا ماہواری رسائل کی خرید وفروخت جائز ہے؟ جب کہ ان میں فلمی اشتہار کے لیے تصویریں اور جرائم کی تشہیر بھی کی جاتی ہے، جب کہ ان جرائم پر کسی عتاب یا گرفت کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا۔

جواب

جو اخبارات ورسائل خالص مذہبی، ادبی، سائنسی اور مضامین خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں ان کی خرید وفروخت درست ہے، البتہ ایسے اخبارات ورسائل جن کا مقصد ہی خرافات اور فلمی اشتہارات وغیرہ ہوتے ہیں، جو تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث ہیں، ان کی خریدوفروخت صحیح نہیں ہے ۔

ہاں ایسے اخبارات ورسائل جن میں اصل مقصد خبریں اور مضامین اصلاحیہ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی تصاویر وغیرہ بھی ہوتی ہیں تو ایسے اخبارت ورسائل کے بارے میں مفتی کفایت اﷲ صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں چوں کہ تصویر کی بیع وشراء مقصود نہیں ہوتی، اس لیے ضرورتاً گنجائش ہے اور ضرورتاً ان اخبارات کا خریدنا جائز ہے ( کفایت المفتی ص،٢٤٣، ج٩) اس لیے ایسے اخبارات ورسائل کی تجارت جائز ہے ،البتہ تقویٰ کے خلاف ہے۔

''الأمور بمقاصدھا، یعني أن الحکم الذي یترتب علی أمر یکون علی مقتضی ما ھو المقصود من ذلک الأمر۔۔۔۔۔۔ ثم اعلم أن الکلام ھنا علی حذف المضاف، والتقدیر: حکم الأمور بمقاصد فاعلھا، أي أن الأحکام الشرعیۃ التي تترتب علی أفعال المکلفین منوطۃ بمقاصدھم من تلک الأفعال، فلو أن الفاعل المکلف قصد بالفعل الذي فعلہ أمراً مباحاً کان فعلہ مباحاً، وإن قصد أمراً محرماً کان فعلہ محرماً''. (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، المقالۃ (رقم المادۃ: ٢):١/١٧،١٨، مکتبہ حنفیہ، کوئٹہ)

''إنما الأعمال بالنیات''(صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلخ: رقم: ١)

''قال أصحابنا وغیرھم من العلمائ:تصویرصورۃ الحیوان حرام شدید التحریم۔۔۔۔وأما اتخاذ المصور بحیوان، فإن کان معلقاً علی حائطٍ سواء کان لہ ظل أم لا، أو ثوباً ملبوساً أو عمامۃ أو نحو ذلک فھو حرام، وأما الوساۃ ونحوھا مما یمتھن فلیس بحرام''. (المرقاۃ شرح مشکاۃ المصابیح:کتاب اللباس،باب التصاویر:٨/٢٢٦، رشیدیۃ)

''وعرف بھذا أنہ لایکرہ بیع ما لم تقم المعصیتہ بہ،کبیع الجاریۃ المغنیۃ والکبش النطوع''.(النھر الفائق،کتاب السیر،باب البغاۃ: ٣٠/٢٦٨،قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی