کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل معاشرے کے لوگ یزید کو کافر اور گالی وغیرہ دیتے ہیں، اور شیعہ لوگ بھی ان کو گالی وغیرہ دیتے ہیں، جب کہ ان کے متعلق بخاری شریف میں آیا ہے کہ جو سپہ سالار قسطنطینیہ کو فتح کرے گا، وہ جنت میں جائے گا، اس حدیث کی رو سے یزید جو کہ سپہ سالار تھے وہ جنت میں جائے گا، اس حدیث میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا یزید ایک معاشرے کے بدترین انسانوں میں سے ہے یا نہیں؟ برائے مہر بانی یزید کے بارے میں قرآن وحدیث کے حوالے سے جواب دیں۔
یزید کے متعلق یہ بحث کہ وہ اچھا تھا یا برا تھا، یہ بالکل فضول بحث ہے، جیسے بھی تھا اپنے اعمال کے ساتھ وہ خدا کے حضور پیش ہوگا اور اپنے اعمال کی جواب دہی خود خدا کے سامنے کرے گا، قرآن نے ایسے مسائل کے متعلق یہ قانون بتایا ہے کہ: «تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ».[البقرة: 134]
اسی طرح جب فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیا کہ پہلے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے وہ کیسے گذرے:«قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى ».[طه: 51]
، تو حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا کہ :«قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى».[طه: 52]
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا ان مسائل میں سکوت افضل اور بہتر ہے، ان مسائل میں کوئی دنیوی فائدہ منحصر ہے اور نہ اخروی، البتہ یزید پر لعن طعن کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ ملا علی قاری ؒ نے شرح فقہ الاکبر میں امام غزالیؒ سے نقل کیا ہے: "قال حجۃ الإسلام في الإحیاء: فإن قيل هل يجوز لعن يزيد لکونہ قاتل الحسين أو أمر به ؟ قلنا هذا مما لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله أو أمر بہ فضلاً عن لعنہ "(إلی ان قال)"وعلى الجملة ففي لعن الأشخاص خطر فليجتنب ولا خطر في السكوت عن لعن إبليس فضلاً عن غيره" (ص:86)
اسی طرح ابن حجر مکی ؒ نے ’’الصواعق المحرقة‘‘
میں لکھا ہے کہ:’’وقال آخرون لا يجوز لعنه إذ لم يثبت عندنا ما يقتضيه وبه أفتى الغزالي وأطال في الانتصار له وهذا هو اللائق بقواعد أئمتنا وبما صرحوا به من أنه لا يجوز أن يلعن شخص بخصوصه الخ‘‘. (الصواعق المحرقة: ص:316، النوریة الرضویة ببلشنک کمپنی)
اسی طرح ابن العربی المالکیؒ نے ’’العواصم من القواصم‘‘
نامی کتاب میں ان سب الزامات پر تفصیلی بحث کی ہے کہ جن کی نسبت یزید کی طرف کی جاتی ہے اور آخر میں فرمایا کہ:’’قلنا: وبأي شيء نعلم عدم علمه أو عدم عدالته ؟ ولو كان مسلوبهما لذكر ذلك الثلاثة الفضلاء الذين اشاروا عليه بأن لا يفعل‘‘.(العواصم من القواصم: ص: 223، سہیل اکیدمی)
، اور ابن عربی نے تمام الزامات نقل کرنے اور جواب دینے کے بعد لکھا ہے کہ: ’’وانظروا إلى الأئمة الأخيار وفقهاء الأمصار، هل أقبلوا على هذه الخرافات وتكلموا في مثل هذه الحماقات؟ بل علموا أنها عصبيات جاهلية، وحمية باطلة، لا تفيد إلا قطع الحبل بين الخلق وتشتيت الشمل واختلاف الأهواء- وقد كان ما كان، وقال الأخباريون ما قالوا- فإما سكوت، وإما اقتداء بأهل العلم، وطرح لسخافات المؤرخين والأدباء الخ ‘‘.(ص: 234، سہیل اکیدمی)
ان سب عبارتوں سے یہ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)۔۔۔کہ یزید پر لعنت جائز نہیں ہے۔
(2)۔۔۔اور یزید کے فسق وفجور کے ثبوت کے لیے جو روایات پیش کی جاتی ہے اکثر بے سند اور موضوع ہیں۔فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:03/13