کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک گھر میں چند ساتھی ایک ساتھ رہتے ہیں، مکان ایک ساتھی کا ہے، یعنی وہ اس کا کرایہ ادا کرتا ہےباقی ساتھی ان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ہمیں کام کرنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے، ان میں بعض ساتھیوں کو اس کی طرف سے کھانا بھی ملتا ہے، اور بعض اپنے گھروں سے کھانا کھاکر آتے ہیں، کبھی کبھار پڑوس والوں کی طرف سے کھانا وغیرہ آتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس کھانے میں سب ساتھیوں کا شریک ہونا ضرری ہے کہ نہیں، جب کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض ساتھی اس موقع پر موجود نہیں ہوتے۔
واضح رہے کہ کسی کو ہدیہ دینا مسنون اور مستحب عمل ہے، اور احادیث میں اس کی ترغیب بھی آئی ہے، مثلا ایک حدیث ہے جس کا ترجمہ ہے:’’تم ایک دوسروں کو ہدیہ دیا کرو، اس سے تمہارے درمیان محبت پیدا ہوگی‘‘ نیز پڑوسیوں کی طرف سے بھیجا ہوا کھانا عموما ہدیہ کا ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں آپ سب ساتھیوں کے لئے مذکورہ کھانا ،کھانا جائز ودرست ہے، خواہ وہ کھانا ساتھی کی طرف سے ہویا پڑوسیوں کی طرف سے،نیز کھانے میں سب ساتھیوں کا شریک ہونا ضروری نہیں ہے۔لما في التنوير مع الدر:
’’(هي)...(تمليك العين مجانا) أي: بلا عوض... (وسببها: إرادة الخير للواهب) دنيوي: كعوض ومحبة وحسن ثناء.وأخروي‘‘.(كتاب الهبة: 534/12، رشيدية)
وفي بدائع الصنائع:
’’ أما ركن الهبة؛ فهو الإيجاب من الواهب، فأما القبول من الموهوب له فليس بركن استحسانا... فأما القبول والقبض ففعل الموهوب له، فلا يكون مقدور الواهب، والملك محكوم شرعي ثبت جبرا من الله تعالى، شاء العبد أو أبى، فلا يتصور منع النفس عنه أيضا، بخلاف البيع‘‘. (كتاب الهبة: 84/8، دارالكتب العلمية)
وفي البحر الرائق:
’’(هي تمليك العين بلا عوض) فخرجت الإباحة والعارية والإجارة والبيع... وسببها إرادة الخير للواهب دنيوي كالعوض وحسن الثناء والمحبة من الموهوب له، وأخروي وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ والملك‘‘.(كتاب الهبة: 483/7، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/257