گاڑیوں کی راہداری کرنے پر رقم لینے کا حکم

گاڑیوں کی راہداری کرنے پر رقم لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں بلوچستان میں ایرانی تیل کی ترسیل ہوتی ہے حکومت کی طرف سے اس کی اجازت ہےاور سرکاری طور پر اس کروبار پر کوئی ٹیکس نہیں ہے البتہ انتظامیہ پولیس و لیویز اہلکار اپنی چیک پوسٹوں پر تیل بردار گاڑیوں سے بھاری رقم بطور بھتہ کے وصول کرتے ہیں اور دوسرے جانب بعض قبائلی لوگ اسلحہ کے زور پر بھی بھتہ وصول کرتے ہیں، بندہ کا علاقہ میں اثر و رسوخ ہے بعض گاڑیوں کو چیک پوسٹوں سے اور دیگر قبائلی مسلح لوگوں سے چھڑا کر راہداری کرتا ہے کبھی کبھار پوری رات اسی میں بسر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ سرکاری اور نجھی بھتہ خوری اور راستے کے سفری خطرات سے محفوظ رہتے ہیں، میں ان سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتا کہ مجھے اتنی رقم دیدو کوئی ایک ہزار کوئی دو ہزار کوئی اس سے زیادہ اپنے مرضی سے دے دیتا ہے صرف یہ کہتا ہوں کہ جو آپ دے دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، لہذا اس رقم کا میرے لئے لینا جائز ہے کہ نہیں آیا میں بھتہ خوروں کی زمرے میں تو نہیں آتا ازروشرع وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ باقاعدہ گاڑی والوں سے طے کرلے کہ اس خدمت کا میں اتنا عوض لوں گا، اگر آپ اس خدمت پر عوض لینا نہیں چاہتے تو بھی آپ ان کو واضح طور پر بتادیں کہ میں اس کا عوض نہیں چاہتا، پھر اگر کوئی اپنی مرضی سے آپ کو دے تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ اس طرح سے معاملے کو پوشیدہ رکھنا درست نہیں۔
لما في التنزيل:
[وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ].(سورة البقرة، الاية:188)
وفي مشكاة المصابيح:
وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :’’ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني.(كتاب الاداب، باب الغضب والعارية، رقم الحديث:2946، دارالسلام)
وفي حاشية ابن عابدين:
’’الثالث أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط... والحيلة أن يستأجره الخ. قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به‘‘.(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، 42/8، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 196/109