کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ:
۱…زید نے ایک گاڑی کو دیکھ کر پسند کیا بعد ازآں وہ خالد کے پاس چلا گیا، انہیں گاڑی کے بابت بتایا کہ آپ جناب یہ گاڑی میرے لئے خریدیں، میں قسطوار اس کی قیمت ادا کروں گا، خالد نے زید کے کہنے پر گاڑی نقداً 12 لاکھ کی خریدی، اور خالد چونکہ گاڑی کا مالک بن گیا، لہذا اب موصوف نے زید سے کہا، کہ آپ مجھے چار سے پانچ لاکھ روپے نقد دے دیں، اور کُل قیمت انہوں نے گاڑی کی 24 لاکھ طے کردی، جس میں موصوف زید نے 5 لاکھ روپے نقد دیئے، اور باقی ماندہ رقم ماہانہ قسطوار ادا کیے جائیں گے، اور خالد نے زید کو یہ بھی کہا، کہ آپ یہ گاڑی دوبارہ واپس نہ کریں، یعنی اب یہ گاڑی ناقابل واپسی ہوگی، جس پر زید نے رضامندی کا اظہار کیا، تو کیا اس طرح کی بیع شرعاً جائز ہے؟
۲…مسئلہ ہذا بھی مذکورہ مسئلے سے قدرے مشترک ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پر موصوف حبیب اللہ نے گاڑی پسند کی، اور اسی کی طلب پر عمران نے وہ گاڑی نقداً 10 لاکھ کی خریدی، اور حبیب اللہ کو قسطوں کے حساب سے 20 لاکھ کی فروخت کی، اور کچھ رقم نقد وصول کی، مگر عمران نے یہ کہا کہ جناب آپ گاڑی چلائیں ہفتہ مہینہ، غرض یہ کہ اگر گاڑی پسند نہ آئی، تو میرا کاروبار یہی ہے، لہذا آپ بلا چوں وچراں گاڑی لاکر میرے شوروم میں کھڑی کردیں، جس پر حبیب اللہ نے رضامندی کا اظہار کیا، تو کیا اس طرح کی بیع شرعا جائز ہے؟
(۱-۲) مذکورہ دونوں صورتوں میں خریدوفروخت کی تمام صورتیں شرعاً جائز ہیں،ان میں کوئی قباحت نہیں ہے۔لمافي التنزيل العزيز:
}وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا{.(البقرة:275)
وفي البدائع:
’’وأما بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل فنقول وبالله التوفيق :حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه ؛وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق، وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى...؛ لأن الملك مطلق للتصرف في الأصل‘‘.(كتاب الدعوى، فصل في حكم الملك والحق الثابت في المحل: 509/8: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/130