گائے بیچنے اور اجارہ پر دینے کی جائز و فاسد صورت

Darul Ifta

گائے بیچنے اور اجارہ پر دینے کی جائز و فاسد صورت

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی ایک گائے ہے، اور خالد زید سے کہتا ہے کہ آپ اپنی گائے کی قیمت لگالو،  اور گائے کی جو قیمت لگ گئی، کاروبار کے آخر میں وہ قیمت تجھے واپس کروں گا، اور گائے مجھے دے دو، میں اس کو پالوں گا اور جب ہم دونوں اس کاروبار کو ختم کریں گے، تو جو منافع ہوگا، وہ ہمارے درمیان نصفا تقسیم ہوگا، چاہے وہ منافع گائے کے بچوں میں ہو یا گائے کی قیمت بڑھ جانے میں ہو۔
اگر یہ صورت بالفرض جائز نہیں، تو اس جیسی کوئی اور صورت درج کی جائے جو جائز ہو۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ معاملہ جائز و درست نہیں ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ: زید اپنی آدھی گائے خالد پر فروخت کردے، اس کے بعد زید خالد کو آدھی قیمت سے بری کردے ، اس طرح گائے زید اور خالد کے درمیان مشترک ہو جائے گی، اور اس کا خرچہ اور دیکھ بھال دونوں پر لازم ہوگا، پھر حاصل ہونے والے  منافع میں دونوں شریک ہوں گے،تاہم اگر ایک شریک بخوشی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیتا ہے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔
لما في الشامية:
’’(وصح بثمن حال) وهو الاصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع‘‘.
’’وقال ابن عابدين رحمه الله تعالى تحته: وأما مفهوم الشرط المذكور وهو أنه لا يصح إذا كان الأجل مجهولا فعلته كونه يفضي إلى النزاع‘‘.(كتاب البيوع، مطلب في الفرق بين الأثمان والمبيعات، 7 /49،50، رشيدية)
وفي المحيط البرهاني:
’’وإن شرط الأجل في الثمن، والثمن دين، فإن كان الأجل معلوما  فالبيع جائز، وإن كان الأجل مجهولا فالبيع فاسد‘‘.(كتاب البيوع، الفصل السابع: الشروط التي تفسد البيع، 412/9، إدارة القرآن)
وفي الفتاوى التاتارخانية:
والحيلة في جنس هذه المسائل أن يبيع صاحب البيضة نصف البيضة و صاحب الدجاجة و البقرة نصف الدجاجة، و البقرة من المدفوع إليه و يبرئه عن الثمن ما اشترى، فيكون الخارج بينهما.(كتاب الإجارة، الفصل الثاني و الثلاثون: المسائل التي بمعنى قفيز الطحان، 346/15، فاروقيه كوئته).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/25

footer