کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، اس شخص نے شروع سے بولا تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی میں یہ بہن کو دوں گا، کیونکہ اس وقت ان کی اولاد نہیں ہے، اب وہ بیٹا اس نے بہن کو دے دیا ہے، چنانچہ اس کی ولدیت اب کیا لکھی جائے گی؟ اصل والد کا نام لکھا جائے گا یا جس کی پرورش میں رہا (بہنوئی) اس کا نام لکھا جائے گا؟ اگر سرپرست (بہنوئی) کا نام لکھا جائے تو یہ لڑکا جائیداد کا حق دار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ کسی شخص کی نسبت اس کے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف کرنے سے متعلق احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف کرے جبکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ شخص میرا باپ نہیں، تو جنت اس پر حرام ہے‘‘۔
لہذا صورت مسئولہ میں بچے کی ولدیت تو اس کے اصل والد کے نام ہی سےلکھی جائے، البتہ بطور سرپرست کے بہنوئی کا نام لکھا جا سکتا ہے۔ نیز مذکورہ بچے کوبہنوئی کی وراثت سے حصہ نہیں ملے گا، بلکہ والد کی وراثت سے حصہ دیا جائے گا۔ ہاں اگر بہنوئی مذکورہ بچے کو اپنی زندگی میں کوئی چیز بطور ھبہ دے دے، تو قبضہ کے بعد وہ بچے کی ملک شمار کی جائے گی۔لما في التنزيل:
﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ الله﴾.(سورة الأحزاب، 5)
وفي روح المعاني:
’’لا يجوز إنتساب الشخص إلى غير أبيه وعد ذلك بعضهم من الكبائر.... وأخرج الشيخان أيضا من ادعى إلى غير أبيه أو إنتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله تعالى والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله تعالى منه صرفا ولا عدلا‘‘.(سورة الأحزاب، 194/21، رقم الآية:5، مؤسسة الرسالة)
وفي صحيح البخاري:
عن سعد رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:’’من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام‘‘.(كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه، 1167، ح:6766، دارالسلام الرياض).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/254