کیا لفظ ’’چھوڑدینے‘‘ سے طلاق واقع ہوگی؟

Darul Ifta

کیا لفظ ’’چھوڑدینے‘‘ سے طلاق واقع ہوگی؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی کے درمیان بحث ہورہی تھی،بیوی نے کہا ’’مجھے چھوڑدو‘‘ بیوی کی نیت طلاق کی تھی اس وقت یعنی طلاق کی، شوہر نے کہا جواب میں ’’چھوڑدیا جاو چھوڑدیا‘‘ یہ چھوڑدیا الفاظ شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ پانچ بار دہرائے اور آخر میں یہ بھی کہا ’’جاو اپنا کام کرو، جاو دفعہ ہوجاؤ، میں تم سے بات نہیں کرتا، میں تم سے بحث نہیں کرتا‘‘۔
اب میرا شک ہے، شوہر نے ایک ساتھ پانچ بار یہ الفاظ ’’چھوڑدیا‘‘ کہےہیں، کیا ’’چھوڑدیا‘‘ لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے؟ شوہر کا کہنا ہےمیں نے صرف پانچ بار ایک ساتھ ’’چھوڑدیا‘‘ الفاظ کہے ہیں، لفظ طلاق نہیں کہا اور نیت طلاق کی نہیں تھی، ایک ساتھ پانچ بار شوہر نے ’’چھوڑدیا، چھوڑدیا‘‘ الفاظ کہے ہیں ، کیا ’’چھوڑدیا‘‘ الفاظ سے طلاق ہوجاتی ہے؟ آپ حضرات مذکورہ مسئلہ کا جواب دیں۔

جواب

واضح رہے لفظ ’’چھوڑدیا‘‘ عرف میں طلاق کےلئے مستعمل ہےاور یہ صریح طلاق ہے، لہذا اس سےبلانیت طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے، صورت مسئولہ میں شوہر کے پانچ مرتبہ ’’چھوڑدیا‘‘ کہنے سے تینوں طلاقیں واقع ہو کر بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام  ہوچکی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع ممکن نہیں۔
لمافي حاشية ابن عابدين :
’’فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن لولا ذلك لوقع به الرجعي‘‘.(کتاب الطلاق، باب الکنایات، 519/4، رشیدیة)
وفي البحر الرائق:
’’ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به طلاق رجعي بدون النية‘‘.(کتاب الطلاق، باب الکنایات في الطلاق، 524/3، رشیدیة)
وفي البزازية:
’’قوله:سرحتك وهو بها يليه كردم لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح في العرف على ما صرح به نجم اللزاهد الخوارزمي في شرح القدوري ألا يرى أنه فارق الصريح في مسألة تعدد الطلاق على المتعددة منهن وإن نوى ثلاثا فثلاث وإن قال لم أنو لم يصدق في موضع صار متعارفا‘‘.(كتاب الطلاق، في الكنايات، 239/2، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/14

footer