کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچے کی پیدائش کے بعد ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے یا دوران حمل اور پیدائش سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا ہوگا؟ اگر کوئی اپنی ایسی اولاد کا فطرانہ ادا کرنا چاہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بچہ کی پیدائش کے بعد ہی اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوتا ہے، لہٰذا جنین(پیٹ میں موجود بچہ) کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔لما في الدر مع الرد:
’’(تجب)وحدیث:’’فرض رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام زکاۃ الفطر‘‘ معناہ قدر.... (عن نفسہ) متعلق بیجب وإن لم یصم لعذر (وطفلہ الفقیر)... (لا عن زوجتہ) وولدہ الکبیر العاقل‘‘.
’’قولہ: (وطفلہ) احترز بہ عن الجنین فإنہ لا یسمی طفلا، کذا فی البرجندي، إذا الطفل ھو الصبي حین یسقط من بطن أمہ إلی أن یحتلم‘‘. (کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: 362/3، رشیدیۃ)
وفي بدائع الصنائع:
’’وأما السبب: فرأس یلزمہ مؤنتہ، ویلي علیہ ولایۃ کاملۃ، لأن الرأس الذي یمونہ ویلي علیہ ولایۃ کاملۃ تکون في معنی رأسہ في الذب والنصرۃ‘‘. (کتاب الزکاۃ، فصل في زکاۃ الفطر: 535/2، دارالکتب العلمیۃ بیروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:190/348