کیا حج بدل حج کرانے والے کے پیسوں سے کرنا ضروری ہے؟

کیا حج بدل حج کرانے والے کے پیسوں سے کرنا ضروری ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدنے اپنے دادا خالد کی طرف سے حج بدل کرانے کے لیے عمرو کو کہا کہ آپ جاکر میرے دادا کی طرف سے حج بدل کرکے آؤ، میں تمام اخراجات برداشت کروں گا، تو یہ سن کر عمرو نے کہا: بالکل ٹھیک ہے، بعد ازاں جب روانگی ہورہی تھی، تو عمرو کے کسی دوست نے کہا کہ میں آپ کو اپنے خرچ سے لے جاتا ہوں، لہذا ابھی یہ فرمائیں کہ اگر عمرو اپنے دوست کے خرچ سے حج بدل کرنے کے لیے جائے، تو آیا زید کے دادا خالد کو ثواب ملے گا یا نہیں؟ حالانکہ نیت بھی زید کے دادا کی کرتا ہے، نیز زید کی دی ہوئی رقوم واپس کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

مذکورہ صورت میں حج کے ثواب کا خالد کو ملنا تو اخروی معاملہ ہےکہ اگر اللہ تبارک وتعالی چاہے ثواب خالد کو پہنچادے، لیکن فقہی قواعد کے مطابق اگر عمرو اپنے دوست کے خرچ پر حج کرے گا ، تو وہ خالد کی طرف سے حج بدل نہیں ہوگا، کیونکہ حج بدل کے لیے فقہاء نے بہت سی شرائط لکھی ہیں، ملاحظہ ہو:(عالمگیریہ: کتاب الحج، الباب الرابع في الحج عن الغیر:257/1)
ان شروط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حج بدل کرنے والا حج بدل حج کرانے والے  کے پیسوں سے ادا کرے یا محجوج عنہ کے وارث کے پیسوں سے، چنانچہ عالمگیریہ میں لکھا ہے کہ:
’’ومنهاأن يكون حجا لمأمور بما لا لمحجوج عنه فإن تطوعا لحاج عنه بمال نفسه لم يجزعنه حتى يحج بماله‘‘. (عالمگیریہ: 257/1) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ صورت میں عمرو کا حج خالد کی طرف سے حج بدل نہیں ہوگا۔(وکذا في فتاوی دارالعلوم: 564/6)۔فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/46