کیا بہو پر ساس اور سسر کی خدمت لازم ہے اور اس کو خدمت کےلیے کہہ سکتے ہیں؟

کیا بہو پر ساس اور سسر کی خدمت لازم ہےاور اس کو خدمت کےلیے کہہ سکتے ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا بہو پر ساس وسسر کی خدمت از روئے شرع وائمہ اربعہ لازم ہے؟ کیا لڑکا بیوی کو اپنے ماں باپ کی خدمت کا حکم دے سکتا ہے؟

جواب

بہو پر ساس اور سسر کی خدمت شرعا لازم تو نہیں ہے، البتہ بہتر اور مناسب یہ ہے کہ وہ ساس اور سسر کی خدمت کر ے، لیکن شرعا اس کے لیے ضروری نہیں ہے، کیونکہ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے ایسے گھر کا مطالبہ کرے جس میں خاوند کے رشتہ دار میں سے کوئی نہ ہو، یعنی صرف بیوی اور اس کا شوہر رہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
’’وعلى الزوج أن يسكنها في دار مفردة ليس فيها أحد من أهله إلا أن تختار ذلك لآن السكنى من كفايتها فتجب لها كالنفقة وقد أوجبه الله تعالى مقرونا بالنفقة وإذا أوجب حقا لها ليس له أن يشرك غيرها فيه؛ لأنها تتضرر به فإنها لا تأمن على متاعها ويمنعها ذلك عن المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع إلا أن تختار؛ لأنها رضيت بانتقاص حقها‘‘۔ (ہدایہ اولین، باب النفقۃ:441/1)
تو ایسی صورت میں ساس وسسر کی خدمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور فقہاء کرام نے صراحتاً یہ بھی لکھا ہے کہ خود شوہر کی بعض خدمات جو عرفاً عورتیں گھروں میں کرتی رہتی ہیں وہ بھی عورت پر واجب نہیں ہیں، تو ساس وسسر کی خدمت بھی واجب نہیں ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/91