کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص زمین کا کچھ حصہ اپنے حقیقی بھتیجوں کو بطور ہبہ دے دیتا ہے اور اس کا کچھ عوض بھی حاصل کرلیتا ہے اور عرصہ بیس سال کے بعد واپس لیتا ہے، تو کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ موہوب شیء (ہدیہ کی ہوئی چیز)کو واپس کرے۔ نیز موہوب لہ کو شرعا اجازت ہے کہ وہ موہوب شیء کو حاصل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کرے؟
اجنبی کو اگر کوئی چیز ھبۃ (ہدیہ/گفٹ) دے دی جائے، تو واھب(ہدیہ دینے والا) پھر اگر رجوع کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن اگر موھوب لہ(جس کو ہدیہ دیا گیا ہو) نے اس کو عوض دیا ہو یا شیء موھوب (ہدیہ میں دی گئی چیز) میں کچھ ایسی زیادتی ہوئی ہو کہ وہ زیادتی موھوب شیء کے ساتھ متصل ہو اور الگ نہیں ہوسکتی ہے، تو پھر واھب رجوع نہیں کرسکتا ہے جیسا کہ ھدایہ میں لکھا ہے:’’وإذا وهب هبة لأجنبي فله الرجوع فيها (إلى أن قال) إلا أن يعوضه عنها لحصول المقصود أو تزيد زيادة متصلة؛ لأنه لا وجه إلى الرجوع فيها دون الزيادة؛ لعدم الإمكان ولا مع الزيادة؛ لعدم دخولها تحت العقد‘‘.(ھدایہ اخیرین، باب مایصح رجوعہ وما لا یصح، ص:289)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اگر واھب عوض لے چکا ہو تو پھر اس کے رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے،اسی طرح در مختار میں لکھا ہے کہ:’’ويمنع الرجوع فيها حروف دمع خزقة (إلى أن قال) والعين العوض بشرط أن يذكر لفظا يعلم الواهب أنه عوض كل هبته، فإن قال: خذه عوض هبتك أو بدلها أو في مقابلتها ونحو ذلك، فقبضه الواهب سقط الرجوع، ولو لم يذكر أنه عوض رجع بكل هبته‘‘.(در مختار:516/4)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اگر عوض کی صراحت کرکے واھب کو چیز دے دی ہے، تب تو رجوع کا حق واھب کا ساقط ہوگا ورنہ نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ:’’هٰهنا كلام وهو أن الأصل المعروف كالملفوظ، كما صرح به في الكافي وفي العرف يقصد التعويض، ولا يذكر خذ بدل هبتك ونحوه استحياء، فينبغي أن لا يرجع، وإن لم يذكر البدلية‘‘.(شامی:516/4)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ عرفا اگر یہ معلوم ہو کہ واھب کو جو کچھ دیا ہے وہ اس ھبہ کا عوض ہے، تو پھر رجوع کا حق نہیں اگرچہ تلفظ نہ کیا ہو۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/141