کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کسی مدرسہ میں اپنے اساتذہ یا دوستوں سے ملنے کے لئے جاتا ہے، تو کیا مدرسہ کے کھانا پینا وغیرہ شرعا اس کے لئے جائز ہے؟
واضح رہے کہ مدارس دینیہ کی انتظامیہ عامۃ المسلمین کی جانب سے وکیل اور امین ہے، اور مدارس دینیہ کو جو کچھ چندہ،صدقات، زکوٰۃ وغیرہ کی مد میں دیا جاتا ہے، وہ سب مال مشترک کے حکم میں ہے، اور مال مشترک کا اپنے مصرف میں خرچ ہونا ضروری ہے، متولی ایسے اس کو اپنی ذاتی تصرف میں خرچ نہیں کرسکتا۔
لہذا اگر مدارس دینیہ میں کوئی مہمان یا شاگرد اپنے کسی استاد یا مدیر سے ملاقات یا استفادہ کے لئے آجائے تو وہ خالص اسی استاذ یا مدیر یا دوست کا مہمان ہے،اس میزبان پر لازم ہےکہ وہ خود اپنے خرچہ سے اس کی مہمان نوازی کرے،اور جو ذاتی طور سے ملاقات کے لئے نہ آئے،بلکہ مادر علمی سے تعلق کی بنا پر آئے،تو وہ مدرسہ کا مہمان ہوگا،اس کی مدرسہ کے فنڈ سے تین دن تک مہمانی کی اجازت ہوگی۔لما في رد المحتار:
’’فإن شرائط الواقف معتبرة اذا لم تخالف الشرع وهومالك ،فله أيجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة‘‘. (كتاب الوقف، مطلب شرائط الواقف معتبرة، 526/6، رشيدية)
وفي المتن مع الدر:
’’لأن التعامل يترك به القياس لحديث: (مارآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن)بخلاف مالا تعامل فيه‘‘.(كتاب الوقف، مطلب شرائط الواقف معتبرة، 526/6، رشيدية).
وفي حاشية ابن عابدين:
’’والحاصل أن الوجه يقتضي أن ما كان قريبا من العمارة يلحق بها في التقديم على بقية المستحقين وإن شرط الواقف قسمة الريع على الجميع بالحصة أو جعل لكل قدرا وكان ما قدره للإمام ونحوه لا يكفيه فيعطى قدر الكفاية لئلا يلزم تعطيل المسجد فيقدم أولا العمارة الضرورية ثم الأهم فالأهم من المصالح والشعائر بقدر ما يقوم به الحال فإن فضل شيء يعطى لبقية المستحقين إذ لا شك أن مراد الواقف انتظام حال مسجده أو مدرسته لا مجرد انتفاع أهل الوقف‘‘.(كتاب الوقف، مطلب يبدأ بعد العمارة بما هو أقرب إليها، 563/6، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/299