کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کمیٹی میں پیسے جمع کرنے والوں پر وجوب زکوۃ کے بارے میں کے بارے میں کیا حکم ہے،جس کی تفصیل ذیل میں ہے:
چند آدمی جمع ہوکر آپس کے معاہدے سے یہ طےکرتے ہیں کہ روزانہ یا ہفتہ وار کے اعتبار سے متعین رقم جمع کرتے رہیں گے، اور ہر یکم تاریخ کو جمع شدہ رقم کو قرعہ اندازی کی بناء پر کسی ایک کو دیں گے۔تو اس کمیٹی میں تین قسم کے لوگ شریک کاررہیں گے۔
اول: وہ شخص کہ جس کو پہلے مہینہ پر ہی پورے سال کی رقم مل جائے، حالانکہ اس نے تو صرف پہلی کمیٹی ہی جمع کی ہے۔
دوم: وہ شخص کہ جس کو چھٹے مہینہ ( یعنی درمیانی دورانیہ) پر رقم مل جائے۔
سوم: وہ شخص کہ جس کو سب سے آخیر میں (یعنی بارہویں مہینہ پر) رقم مل جائے۔
دریافت طلب امور:
1۔ شریک اول، دوم اور سوم پر وجوب زکاۃ اور عدم وجوب کا حکم واضح کیجئے۔
2۔ کمیٹی کے معاہدے کا کل دورانیہ اگر ایک سال کا ہو، تو زکاۃ کا حکم کیا ہوگا؟ اور ایک سال سے کم کا دورانیہ ہو، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
3۔ اگر ہر ایک کو نصاب کے بقدر پیسے ملتے ہوں، تو اس پر زکاۃ کا حکم اور مال نصاب سے کم کی صورت میں حکم کیا ہوگا؟
ہر ایک صورت کا الگ الگ حکم بیان کرکے عند اللہ مأجور ہوں۔
کمیٹی فقہی اعتبار سے لین دین یعنی (قرض) کی ہی ایک صورت ہے، جس میں متعدد افراد کا مجموعہ ایک مخصوص مدت کے لیے ایک مخصوص رقم جمع کرتا ہے اور پھر قرعہ اندازی کرکے کسی ایک کووہ رقم دین (قرض) کے طور پر دیتا ہے، اور یہی معاملہ تمام افراد کے ساتھ باری باری ہوتا ہے، اور یہ سلسلہ تب تک چلتا ہے جب تک تمام افراد کو یکساں رقم نہ مل جائے۔
واضح رہے کہ وجوب زکاۃ کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ حولان حول (یعنی سال کا گزرنا) اور فارغ عن الدین (یعنی مال کا کسی غیر کے حق سے مشغول نہ ہونا) ہونا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں شرکاء کمیٹی میں کوئی اگر پہلے سے نصاب کا مالک ہو، تو وہ کمیٹی ملنے کے بعد اس رقم سے باقی ماندہ اقساط کے بقدر رقم کو منہا کرکے جو رقم بچے، اس کو زکاۃ کے نصاب میں شامل کرکے اس میں زکاۃ ادا کرے، البتہ اگر وہ نصاب کا مالک نہیں ہے، تو اس کمیٹی کی رقم سے باقی ماندہ اقساط کو منہا کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے اس کو دیگر اموال کے ساتھ ملانے سے اگر نصاب مکمل ہو، اور اس پر حولان حول (یعنی سال کا گزرنا) بھی پایا جائے، تو اس پر زکاۃ لازم ہوگی، وگرنہ نہیں، اور اگر کمیٹی کی رقم خود اس قدر زیادہ ہو کہ نصاب کو پہنچے یا دیگر اموال کے ساتھ ملاکر وہ نصاب کو پہنچے، اور اس کمیٹی کا دورانیہ بھی اس قدر ہو کہ وہ حولان حول کے ماتحت شامل ہو، تو اس پر بھی زکاۃ لازم وضروری ہوگی۔لما في الفتاوی الهندیة:
’’ومنها الفراغ عن الدين قال أصحابنا رحمهم الله تعالى كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد وهو حال أو مؤجل أو لله تعالى كدين الزكاة‘‘.(كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها:172/1: دارالفكر)
و في التنویر مع الدر:
’’(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة . . .. وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا‘‘.(كتاب الزكاة: 260/2: دارالفكر)
وفي الجوهرة النيرة :
’’ قوله:(ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) لأن ملكه فيه ناقص لاستحقاقه بالدين ولأنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما . . . . .قال في النهاية كل دين له مطالب من جهة العباد فإنه يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد أو لله تعالى كدين الزكاة‘‘.(كتاب الزكاة ، شروط وجوب الزکاۃ:114/1: المطبعة الخيرية)
وفي المحيط البرهاني :
’’فنقول: ما يمنع وجوب الزكاة أنواع، منها الذي قال أصحابنا رحمهم الله: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة، سواء كان الدين للعباد، أو لله تعالى كدين الزكاة‘‘.(كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان ما يمنع وجوب الزكاة: 293/2: دار الكتب العلمية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/174