کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ اسلامی طالب علم ہے، لیکن انکے دل میں عجیب عجیب قسم کے خیالات آتے ہیں اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں، یعنی جب نمازمیں یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، تواس کے ذہن میں ایک شکل مخصوصہ پیدا ہوتی ہےاور کیفیت مشکلہ ذہن میں آتی ہے، یعنی کہ العیاذ بااللہ! اللہ کے لئے ایک شکل وجسم ذہن میں آتے ہیں اور کبھی کبھار دل میں یہ بات آتی ہے کہ ملحدین اور کفار جو کہہ رہےہیں کہ اللہ تعالی کی ذات نہیں ہے، بلکہ دنیا خود بخود چل رہی ہے، یہ بات ان کی سچ ہو اور اس طرح کہ اور کفریہ باتیں اور خیالات دل میں آتے ہیں، لیکن پھر کلمہ تشہد پڑھ لیتا ہے، توبہ کرتا ہے اور دعاء بھی مانگتا ہے، لیکن یہ خیالات غیر اختیاری طور پر آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے خیالات آنے کے بعد بندے کا اسلام باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور ان خیالات کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، حالانکہ تعوذ بھی پڑھتا ہے اور اسطرح کے خیالات رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ نعوذ بااللہ! کہ آپ دنیا میں آئے ہی نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور امہات المومنین رضی اللہ عنھن اجمعین کے بارے میں شیعوں کا جو عقیدہ ہے اس بارے میں بھی یہ خیال آئے کہ شاید شیعہ سچ کہہ رہے ہوں، اس بندے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کہ اس کے ساتھ قرابت داری رکھی جائے یا نہیں؟ اس کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ اور یہ مسلمان رہے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ خیالات اور وساوس کا آنا برا نہیں اور نہ ہی اس پر دنیا و آخرت میں مؤاخذہ (پکڑ) ہوگی، بلکہ خیالات آنے کے بعد اس کا پختہ عزم وارادہ کرنا اوراس پر عمل کرنا برا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوا، بلکہ بدستور مسلمان ہے، نہ اس کا نکاح ختم ہوا اور نہ ہی اس کے ساتھ قطع تعلقی کی جائے اور اسے چاہیئے کہ مذکورہ وظائف (توبہ، استغفار، کلمہ تشہد، تعوذ اور دعاء) کا پابندی کے ساتھ اہتمام کرے، اگر کوئی وسوسہ آئے، تو اسے اہمیت نہ دے، اسی طرح کسی اللہ والے صا حب نسبت کے ہا تھوں بیعت کرلے اور وقتا فوقتا اپنے احوال ان کے سامنے رکھتا رہے، تاکہ روحانی علاج صحیح طور پر ہو سکے، تو اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وسوسے کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ لما في صحيح البخاري:
حدثنا الحميدي: حدثنا سفيان: حدثنا مسعر، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((إن الله تجاوز لي عن أمتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل أو تكلم)).(كتاب العتق، باب الخطاوالنسيان ...، رقم الحديث :2528، ص:408: دارالسلام)
و في المرقاة :
’’(ما لم تعمل به) أي :ما دام لم يتعلق به العمل إن كان فعليا (أو تتكلم به) أي: ما لم تتكلم به إن كان قوليا كذا في الأزهار، قال صاحب الروضة في شرح صحيح البخاري، المذهب الصحيح المختار الذي عليه الجمهوران أفعال القلوب إذا استقرت يؤاخذ بها فقوله صلى الله عليه وسلم: ((إن الله تجاوز عن أمتي ما وسوست به صدورها)) محمول على ما إذا لم تستقر ذلك معفو بلا شك لأنه لا يمكن الإنفكاك عنه بخلاف الإستقرار، ثم نقل صاحب الأزهار عن الأحياء ما حاصله :أن لأعمال القلب أربع مراتب:
الأول: الخاطر كما لو خطر له صورة امرأة مثلا خلف ظهره في الطريق لو التفت إليها يراها.
والثاني: هيجان الرغبة إلى الإلتفات إليها ونسميه ميل الطبع، والأول حديث النفس.
والثالث: حكم القلب بأن يفعل أي :ينظر إليها فإن الطبع إذا مال لم تنبعث الهمة والنية، ما لم تندفع الصوارف وهي الحياء والخوف من الله تعالى أو من عباده ونسميه اعتقادا.
والرابع: تصميم العزم على الإلتفات وجزم النية فيه ونسميه عزما بالقلب، أما الخاطر فلا يؤاخذ به، وكذا الميل وهيجان الرغبة؛ لأنهما لا يدخلان تحت الإختيار، وهما المرادان بقوله عليه الصلاة والسلام: ((إن الله تجاوز عن أمتي)) الحديث. وأما الثالث وهو الإعتقاد: فهو مردد بين أن يكون اختيارا لا ينكره واضطرارا ينكره فالإختياري يؤاخذ والإضطراري لا يؤاخذ، وأما الرابع وهو العزم والهم بالفعل، فإنه يؤاخذ به وعليه تنزل الآيات التي دلت على مؤاخذة أعمال القلوب .... فالصواب ما قاله الطيبي من أن الوسوسة ضرورية واختيارية ، فالضرورية : ما يجري في الصدور من الخواطر ابتداء ولا يقدر الإنسان على دفعه فهو معفو عن جميع الأمم، والإختيارية: هي التي تجري في القلب وتستمر وهو يقصد ويعمل به ويتلذذ منه كما يجري في قلبه حب امرأة ويدوم عليه ويقصد الوصول إليها وما أشبه ذلك من المعاصي، فهذا النوع عفا الله عن هذه الأمة خاصة تعظيما وتكريما لنبينا عليه الصلاة والسلام وأمته إليه...‘‘.(كتاب الايمان، باب في الوسوسة، الفصل الاول،238/1:رشيديه ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/90