کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ جب مدرسہ میں اچھا کھانا کبھی ہو تو استاد کے لئے اپنے کسی شاگرد یا دوست مولوی یا غیر عالم کو دعوت دینا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ مدرسہ میں اچھا کھانا پکنے پر کسی کو کھانےمیں شرکت کی دعوت دینا، تو یاد رہے کہ کچھ مدارس میں طلبہ کو کھانا بطور تملیک کے دیا جاتا ہے، اور کچھ طلبہ مطعم میں کھانا کھاتے ہیں،پہلی قسم کے طلباء کو اختیار ہے، جس کو چاہیں دعوت دیں اور جو طلبہ مطعم میں کھانا کھاتے ہیں وہ بطور اباحت کے ہے، تو ان کو صرف اختیار خود کھانے کا ہے، کسی اور کو دعوت دے کر کھلانے کا یا مطعم سے باہر نکالنے کا اختیارنہیں۔لمافي بدائع الصنائع:
’’للمالك أن يتصرف في أي تصرف شاء، سواء كان تصرفا يتعدى ضرر إلى غيره أو لا يتعدى... لأن الملك مطلق للتصرف في الأصل‘‘.(كتاب الدعوى ، فصل في حكم الملك،509/3،رشيدية)
وفي إعلاء السنن:
’’قلت: وهذا إذا لم يعين له الواقف قدرا معلوما فإن عين شيئا فهو له،وإلا فله القدر الذي جرت به العادة‘‘.(كتاب الوقف، باب نفقة القيم للوقف،187/13، إدارة القرآن).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/301