کرائے پر لی گئی چیز کو آگے کرائے پر دینا

کرائے پر لی گئی چیز کو آگے کرائے پر دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی عدنان نے اپنا دکان عابد کو پچاس(50) ہزار ایڈوانس اور پچیس(25)ہزار ماہانہ کرایہ پر دیا پھر عابد نے اسی دکان کو مزین کر کے حسن کو 2 لاکھ ایڈوانس اور 40 ہزار کرایہ پر دیا تھا پھر حسن نے یہی دکان حنیف کو6 لاکھ ایڈوانس اور90 ہزار ماہانہ کرایہ پر دیا، اس طرح کرایہ پر دکان دینا جائز ہے یا نہیں، اگر نہیں تو جواز کی صورت بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کرایے پر لی گئی چیز کو آگے کرائے پر دینا جائز ہے، بشرطیکہ پہلی اجرت کے بقدر یا اس سے کم میں دی ہو، البتہ اگر دکان میں مرمت وغیرہ کا کام کیا جائے تو اس صورت میں آگےزیادہ قیمت کرائے پر دینا بھی جائز ہے، لیکن بغیر مرمت کیئے آگے زیادہ قیمت پر کرائے پر دینا جائز نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں عابد کا دکان مزین کرکے آگے حسن کو پہلے کرائے سے زیادہ کرائے ہر دینا جائز ہے اور زیادتی رقم بھی عابد کے لئے حلال ہے، جب کہ حسن کے لئے بغیر مرمت کیئے زیادہ کرائے پر دینا جائز نہیں ہے اور اضافی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے، رہی بات ایڈوانس رقم کی تو وہ مالک مکان کے پاس بطور امانت ہے جو کہ مدت اجارہ ختم ہونے کے بعد کرایہ دار کو لوٹانا واجب ہے، اور مالک مکان کے لئے اس رقم میں کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(وللمستأجر أن يؤجر المؤجر) بعد قبضه قيل وقبله من غير مؤجره، وأما من مؤجره فلا‘‘. (كتاب الإجارة، في إجارة المستأجر ولغيره، 152/9، رشيدية)
وتحته في الرد:
’’قوله:(للمستأجر أن يؤجر المؤجر الخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص فلو بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين‘‘.(كتاب الإجارة، في إجارة المستأجر ولغيره، 152/9، رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا‘‘.(كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة، 47/9، رشيدية)
وتحته في الرد:
’’قوله:(أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح‘‘.(كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة، 48/9، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 192/212