کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کرایہ دار نے مالک مکان سے کہا، کہ میری بیٹی کی شادی ہے، اور میں اس گھر میں کچھ تعمیر اور رنگ وروغن کرنا چاہتا ہوں، مالک مکان نے کہا، میری طرف سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ خرچ کرنے کی اجازت ہے، اور جو خرچہ ہو تو آپ اس کو لکھیں، کرایہ دار نے کام شروع کیا، ایک واش روم بنایا، اور رنگ وروغن کیا، تو تین لاکھ روپے کا خرچہ آیا، واضح ہو کہ کرایہ دار کو غلط فہمی ہوئی، کہ جو خرچہ ہوگا مالک مکان ادا کرے گا، انہوں نے دوبارہ مالک مکان سے رابطہ نہیں کیا، کہ خرچہ زیادہ آرہا ہے، اب جب کام مکمل ہوا، تو مالک مکان کو پتہ چلا کہ تین لاکھ خرچہ آیا ہے، تو انہوں نے انکار کردیا، کہ میں نے تو پچاس ساٹھ ہزار کا کہا تھا، آپ نے زیادہ خرچہ کردیا اور مجھ سے پوچھا بھی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ رقم مبلغ تین لاکھ مالک مکان کے ذمہ آتی ہے، یا کرایہ دار ہی اسے برداشت کرے۔
واضح رہے کہ مالک مکان کو ہی اپنی ملکیت میں تصرف کا حق حاصل ہے، مگر یہ کہ مالک مکان کی طرف سے کرایہ دار کو تصرف کی اجازت ہو، لہذا صورت مسئولہ میں مالک مکان نے مرمت وغیرہ میں جتنی رقم کرایہ دار کو خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، اتنی رقم ہی مالک مکان کے ذمہ لازم ہوگی، اور زائد خرچہ کرایہ دار کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا، وہ مالک مکان کے ذمہ لازم نہیں ہوگا۔لما في التنویر مع الددر:
’’(وإصلاح بئر الماء والبالوعة والمخرج على صاحب الدار) لكن (بلا جبر عليه)؛ لأنه لا يجبر على إصلاح ملكه (فإن فعله المستأجر فهو متبرع)‘‘.(کتاب الإجارة، مطلب بئر الماء والبالوعة، 135/9: رشیدیة)
وفي البحر الرائق:
’’وإن كان لا يرغب المستأجر إلا على هذا الوقف جاز من غير زيادة في الأجرة إذا قال القيم أو المالك أذنت له في عمارتها فعمر بإذنه يرجع عليه وعلى الوقف. . . . وإن كان يرجع إلى المستأجر وفيه ضرر كالبالوعة والتنور فإنه لا يرجع إلا إذا شرط الرجوع‘‘.(کتاب الإجارة، باب مایجوز من الإجارة ومایکون خلافا فیها: 19/8: رشیدیة)
وفي التاتارخانیة:
’’قال: وإصلاح بئر الماء وبئر البالوعة والمخرج علی رب الدار، وإن کان امتلاء من فعل المستأجر فلا یجبر علی ذلک. . . . وفيي الخانیة: ولا یکون ذلک علی المستأجر، فإن فعل المستأجر ذلک یکون متبرعا، ولا یحتسب من الأجر‘‘.(کتاب الإجارة، فیما یجب علی المستأجر. . . الخ: 151/15: فاروقیة)
وفي المحيط البرهاني:
’’قال: وإصلاح بئر الماء وبئر البالوعة والمخرج على ربّ الدار، وإن كان أصلاً من فعل المستأجر ولا يجبر على ذلك لما بينا. . . . . قال: فإن أصلح المستأجر شيئاً وذلك لم يحتسب له ما أنفق؛ لأنه فعل بغير أمر مالكه فكان متبرعاً والله أعلم‘‘.(کتاب الإجارة، فیما یجب علی المستأجر. . . الخ: 365/11: إدارة القرآن).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/207