چوری کی بجلی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم

چوری کی بجلی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک بندے کا گھرہے، جس میں وہ چوری کی بجلی استعمال کرتاہے، اور اس کے گھر کے نیچے دو دوکانیں ہیں جو اس بندہ نے کرایہ پر دی ہیں،وہ بھی اس بجلی کو استعمال کرتے ہیں لیکن اس بجلی  کا پیسہ دیتے ہیں، آیا اس بجلی سے ان دوکان داروں کا کمانا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ دوکان داروں کو معلوم ہے کہ بجلی چوری کی ہے، اس لیے ان کا اس بجلی کو استعمال کرنا جائز نہیں خواہ بالعوض ہو  یا بلا عوض، البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لما في الدر المحتار:
’’وفي الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث‘‘.(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد: 306/7، رشيدية)
وفي فقه البيوع:
’’المال المغصوب، وما في حكمه مثل: ما قبضه الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعا، لا يحل له الإنتفاع به ولا يبعه.....ولايجوز لأحد يعلم ذلك أن يأخذه منه شراء أو هبة أوإرثا،ويجب عليه أن يرده إلى مالكه‘‘.(الباب العاشر في أحكام مال الحرام: 1018/2، معارف القران  كراتشي).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/71