کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے چندہ کیا بنات کا مدرسہ بنانے کے لیے اور الحمدللہ مدرسہ تعمیر ہوچکا ہے، اب ایک جگہ مسجد تعمیر کروانی ہے، آیا اس مدرسہ کو فروخت کر کےاس مسجد کی تعمیر پراس کا پیسہ لگایا جاسکتا ہے؟
واضح رہے کہ مدرسہ وقف ہوتا ہے اور وقف میں نہ تو کسی کی ملکیت ثابت ہوتی ہےاور نہ ہی اس کی خرید وفروخت جائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مدرسہ کومسجد کی تعمیر کے لیے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔لما في التنوير مع الدر:
’’(فإذا تم ولزم يملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب الرهن شرط كما في التدبير ولو سكنه المشتري أو المرتهن ثم بان أنه وقف أو الصغير لزم أجر المثل قنية(ولا يقسم) بل يتهايؤون (إلا عندهما)‘‘.
وتحته في الشامية:
’’قوله:(لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك‘‘. (كتاب الوقف، مطلب مهم فرق ابويوسف بين قوله: 540/6: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/172