چندہ کا پیسہ کاروبار میں لگانے کا حکم

چندہ کا پیسہ کاروبار میں لگانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی خود اپنے پیسوں سے مسجد کی تعمیر کرے،اور بعد میں لوگوں سے کچھ رقم برائے تعمیر چندہ وصول کرلیں ،لیکن وہ رقم مسجد کی ضروریات میں صرف نہ کرے،بلکہ خود اپنی ضروریات میں خرچ کرلے،اور یہ کہے کہ میں بعد میں یہ رقم مسجد کی مد میں خرچ کروں گا،تو  ایسا کرنا جائزہے۔؟

جواب

واضح رہےکہ مسجد کا پیسہ متولی کے پاس امانت ہوتاہے، اس میں مسجد کے کاموں کے علاوہ کسی قسم کاتصرف کرنااورمسجد کےپیسوں کوکاروبار وغیرہ میں لگاناجائز نہیں ہے۔
لما في الرد على الدر :
’’(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
قوله: (لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر‘‘.(كتاب الوقف، مطلب سكن دار....الخ، 540/6:رشيدية)
وفي الهندية:
’’والوديعة لاتودع، ولا تعار، ولاتؤجر، ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن ‘‘.(كتاب الوديعة، الباب الأول: 338/4:رشيدية)
وفي البحرالرائق:
’’ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد‘‘.(كتاب الوقف:401/5:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/12