کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پھل پکنے کے بعد کسی نے باغ خرید لیا اب مشتری پر زکوۃہے یا عشر؟
واضح رہے کہ پھل پکنے کے بعد اسے فروخت کرنے کی صورت میں بائع کے ذمہ عشرہے، اور یہ عشرایک ہی مرتبہ لازم ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مشتری پرنہ زکوۃ ہے اور نہ ہی عشر، البتہ پھل فروخت کرنے کے بعد حاصل ہونے والی رقم بقدر نصاب ہو، تو اس پر سال گزرنے کے بعد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر مشتری پہلے سے صاحب نصاب ہے، تو دوسرے مال کی زکوۃ ادا کرتے وقت پھلوں کوفروخت کر کےحاصل ہونے والی رقم کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔لمافي الدر:
’’ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري ولو بعده فعلى البائع‘‘.(كتاب الزكاة، باب العشر: 324/3:رشيدية)
وفي البدائع:
’’ولو باع الأرض العشرية وفيها زرع قد أدرك مع زرعها أو باع الزرع خاصة فعشره على البائع دون المشتري لأنه باعه بعد وجوب العشر وتقرره بالإدراك‘‘.(كتاب الزكاة، الخراج والعشر: 175/2:بيروت)
وفي التنوير مع الدر:
’’(وسببه)أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبه للحول لحولانه عليه (تام)‘‘.(كتاب الزكاة: 208/3:رشيدية)
وفي الهندية:
’’ومنها كون المال نصابا فلا تجب في أقل منه... ومنها حولان الحول على المال العبرة في الزكاة للحول القمري‘‘.(كتاب الزكاة، الباب الأول: 233/1:دارالفكربیروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/196