کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے غصے میں اپنی بیوی کو پشتو میں کہا کہ ایک دو تین آپ مجھ پر طلاق ہیں، (یَوْ، دَوَا، دَرِے، تہ پہ مَا طلاقہ یے) تو شریعت مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ دلائل کی روشنی میں واضح فرمادیں۔
صورت مسئولہ میں غصہ کی حالت میں شوہر کے الفاظ "یَوْ، دَوَا، دَرِے، تہ پہ مَا طلاقہ یے” کہنے سے اس کی بیوی تین طلاقوں کے ساتھ مغلظہ ہوگئی ہے، اب بغیر حلالہ شرعیہ کے نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح۔لما فی الخلاصۃ الفتاوی:
’’رجل قال لإمرأتہ: ترا یکی، وترا سہ، او قال: تو یکی تو سہ، قال أبو القاسم الصفار: لا یقع شیئ، وقال الصدر الشھید: یقع إذا نوی، وقال: وبہ یفتیٰ، قال القاضي: وینبغي أن یکون الجواب علی التفصیل، إن کان ذلک في حال مذاکرۃ الطلاق، أو في حال الغضب یقع الطلاق، وإن لم یکن لا یقع الطللاق إلا بالنیۃ کما قال بالعربیۃ: أنت واحدۃ‘‘.(كتاب الطلاق،الفصل الثاني في الکنایات، 98/2)
وأیضا في الفتاوی الھندیۃ:
’’ولو قال لها تو سه ده ونوى الطلاق يقع كذا في خزانة المفتين‘‘.(كتاب الطلاق، الفصل السابع: 448/1).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی