پانچ مہینے کے حمل کو عذر کی وجہ سے ساقط کرنے کا حکم

پانچ مہینے کے حمل کو عذر کی وجہ سے ساقط کرنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاتون حمل سے ہے اور اس حمل کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں، بچے کی دھڑکن، سانس چل رہی ہے بقول ڈاکٹروں کے(چار مختلف ڈاکٹروں کے) یہ بچہ نہایت معذور ہے (پیٹ میں پانی بھرا ہوا ہے، سر میں پھوڑا ہے، حرام مغز نہیں ہے، گردے جگر بہت متأثر ہیں، پھیپڑے خراب ہیں وغیرہ) اس بچے کو ضائع کردیں۔
اب صورت مسئولہ یہ ہے کہ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں مر جاتا ہے تو اس بچے کا پیٹ پھٹ جائے گا اور ماں کے جسم میں زہر سرایت کر جائے گا، جس سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے، اور بچہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بچہ نہیں مرتا اس صورت میں بھی ماں کو اذیت ہوتی رہے گی، خون کی کمی، جسم میں درد اور دیگر عوارض در پیش رہیں گے، آنجناب سے درخواست ہے کہ بندہ کی اس مسئلہ میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اللہ آپ کاحامی و ناصر ہو۔

جواب

صورت مسئولہ میں حمل کو ضائع کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ بچہ پانچ مہینے کا ہو چکا ہے اور حمل میں جان پڑ چکی ہے، حمل میں جان پڑنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا مطلقاً ناجائز اور حرام ہے، باقی رہا ماں کی جان کو خطرے کا مسئلہ تو اس کی وجہ سے بچہ کو ضائع کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ جس طرح ماں کی جان کو خطرہ ہے اسی طرح بچے کی جان کو بھی خطرہ ہے ایک کی وجہ سے دوسرے کو ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔
لما في ردالمحتار:
’’(وجاز لعذر)كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا: يباح لها أن تعالج في استنزل الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما.... (حيث لا يتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر، والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك.(كتاب الحظر والإباحة: 709/9:رشيدية)
وفي الهندية:
’’وإذا اعترض الولد في بطن الحامل ولم يجدوا سبيلا لاستخراج الولد إلا بقطع الولد إربا إربا،ولو لم يفعلوا ذلك يخاف على الأم قالوا: إن كان الولد ميتا في البطن لا بأس به، وإن كان حيا لم نرجواز قطع الولد إربا إربا‘‘.(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون: 416/5: دارالفكربيروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/349