کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کی پانچ (۵) ایکڑ زمین ہے، کیا اس آدمی پر حج فرض ہے؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا پانچ ایکڑ زمین زرعی ہے۔
واضح رہے کہ حج ہر اس بندے پر فرض ہوتا ہے جو نصاب کا مالک ہو، اور اس کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد اتنا مال ہو کہ وہ حج کے ایام میں اپنے اور گھر والوں کے نان ونفقہ کو برداشت کرسکے، اور حج کے اخراجات بسہولت ادا کرسکے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس بندے کے پاس صرف یہ پانچ ایکڑ والی زمین ہی آمدنی کا ذریعہ ہواور اس کی پیداوار اتنی ہو کہ سال بھر استعمال میں لانے کے بعد اتنا بچ جاتا ہوکہ وہ مذکورہ خرچہ کے بقدر ہو تو تب اس پر حج فرض ہوگا،ورنہ نہیں،لیکن اگر اس شخص کے پاس اس زمین کے علاوہ بھی آمدنی کا ذریعہ ہواور اس کا خرچہ اس سے پورا ہوجاتا ہوتو پھر اس کی پیداوار کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اس زمین کی مالیت کا اعتبار ہوگا، اور اس بندے پر حج فرض ہوجائے گا۔لما في الدر مع الرد:
’’(فرض مرة على الفور على مسلم حر مكلف صحيح ذي زاد وراحلة فضلا عما لا بد منه) كما مر في الزكاة، ومنه المسكن و مرمته ولوكبيرا‘‘.
’’قوله: (كما مر في الزكاة) أي من بيان ما لا بد منه من الحوائج الأصلية كفرسه وسلاحه وثيابه وعبيدخدمته و آلات حرفته وقضاء ديونه‘‘.(كتاب الحج:3/ 517-528، رشيدية)
وفي تبيين الحقائق:
’’(فرض مرة على الفور بشرط حرية وبلوغ وعقل وصحة وقدرة زاد وراحلة فضلت عن مسكنه وعما لا بد منه ونفقة ذهابه وإيابه وعياله).
قوله: (وقدرة وزاد راحلة) أي حتى لو كان عادته سؤال الناس والمشي ولم يكن له زاد ولا راحلة لا يجب عليه......
قوله: (ونفقة ذهابه وإيابه)أي وقضاء ديونه اهـ غاية‘‘.(كتاب الحج:2/ 235،236: دار الكتب العلمية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/91