کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں لوگ ایرانی تیل کا کاروبار کرتے ہیں، ایرانی تیل کو باڈر سے اپنی گاڑیوں میں لوڈ کر کے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پہنچاتے ہیں، چونکہ راستے میں پولیس اور ایف سی چیک پوسٹوں پر انہیں رشوت دیتے ہیں، کیونکہ بغیر پیسے دینے کے انہیں جانے نہیں دیتے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ کاروبار کرناجائز ہے اور کیا یہ رشوت کے کے حکم میں آتا ہے یا نہیں، جب کہ بلوچستان میں اس کے علاوہ اور ذریعہ معاش نہ ہونے کے برابر ہے، اسی طرح مزدوروں کا تیل والوں کے پاس کام کرنا اور تیل کی گاڑیوں کو چلانا جائزہے یا نہیں، نیز ڈرائیور کی کمائی اور مالک کی کمائی کا کیا حکم ہے کیا یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا، جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سرکار کی طرف سے باقاعدہ ٹوکن مقرر ہوتا ہے، روزانہ مخصوص ٹوکن مقرر ہوتے ہیں اور صرف یہی مخصوص گاڑیاں تیل لاتی ہیں۔
صورت مسئولہ میں چونکہ سرکار کی طرف سے باقاعدہ ٹوکن مقرر ہوتا ہے، اور ان ٹوکنوں کی بنیاد پر گاڑیاں تیل لاتی ہیں، اس لئے تیل کا مذکورہ کاروبار قانوناً اور شرعاً جائز ہے، اس کام کو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ حتی الامکان رشوت سے بچتے ہوئے اس کام کو کیا جائے، اور اگر بامر مجبوری حفاظت مال وجان کی خاطر رشوت دینا پڑے تو، رشوت کا گناہ رشوت لینے والے پر ہوگا نہ کہ دینے والے پر، اور اس کاروبار کی آمدنی اور نفع حلال ہوگا، نیز مزدوروں کا تیل والوں کے پاس کام کرنا اور تیل کی گاڑیوں کو چلانا بھی جائز ہے اور آمدنی بھی حلال ہوگی۔لمافي رد المحتار:’’وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد...وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق لأنه واجب عليه ... وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم‘‘. (كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية:42/8، رشيدية)وفي مرقاة المفاتيح:’’وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما بالواو، قال: لعن رسول الله الراشي والمرتشي أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة ... قيل الرشوة ما يعطي لإبطال حق أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به‘‘.(كتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهداياهم، الفصل الثاني:322/7، رشيدية)وفي ردالمحتار:’’وتجب طاعة الإمام عادلا كان أو جائرا إذا لم يخالف الشرع‘‘.( كتاب الجهاد، باب البغاة:402/6، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 191/99