کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسقاط مروج کا کیا حکم ہے ؟نور الایضاح میں جائز لکھا ہے۔بینوا توجروا۔
حیلہ اسقط جو ہمارے زمانے میں مروج ہے ،بلا شبہ بدعت ہے ،اس کا حضور ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے ،جب کہ وہ سارع الخیرات تھے، تو خیر القرون میں اس کا کوئی وجود نہیں، باقی بعض فقہاء نے اس کو جو کفارہ صوم پر قیاس کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے، تو یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ اتفاقاً کسی آدمی کے لئے ضرورت پڑے،اور فساد عقیدہ عوام میں نہ ہو اور رسم بدعت پڑنے کا خطرہ نہ ہو ،ورنہ اگر منکرات وبدعات اوریہ عمل فساد عقیدہ عوام پر مشتمل ہو (کما فی زماننا ) تو پھر اس کا ترک بالاتفاق ضروری ہے،ہمارے زمانہ میں اس میں کئی منکرات پیدا ہوگئے ہیں۔
مثلاً:(1)تملیک فقراء اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے تملیک بھی متحقق نہیں ہوتی۔
(2)اس رسم کے عام ہوجانے سے عوام دلیر ہوجاتی ہے کہ روزہ، نماز سب حیلہ اسقاط کے ذریعے ساقط ہو جائیں گے۔
(3)لوگوں نے اس کا ایسا التزام کیا ہے کہ اس کو اعمال کی تجہیز وتکفین میں سے ایک مستقل عمل سمجھتے ہیں ،یہ یقیناً بدعت ہے۔
(4) تملیک فقراء بھی نہیں کی جاتی ہے ، بلکہ اس دائرے میں اکثر علماء اور صاحب نصاب مالدار ہوتے ہیں، جن کی تملیک جائز نہیں ہے ۔ فتاوی دارالعلوم (ص:3/95)
نیز شامی یا دوسرے فقہاء نے جو اجازت دی ہے، اس میں تصریح ہے کہ یہ حیلہ اس وقت جائز ہے، جب کہ ثلث سے فدیہ ادا ہو سکتا ہو اور یہ صورت کبھی اتفاقاً پیش آجاتی ہے اس میں مستقل رسم بنا لینے کی اجازت نہیں۔
( احسن الفتاوی : باب رد البدعات ص:125/1) ، (شامی :ص: 492/1) ، (رسائل ابن عابدین : ص: 225/1) اور (جواہر الفقہ :ص:387/2) میں اس پر تفصیلی اور محققانہ بحث موجود ہے ، اور اس پر اکابر علماء کے دستخط موجود ہیں۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/95