کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ولیمہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور آج کل جو لاکھوں روپے خرچ کر کے ولیمہ کیا جاتا ہے اور بڑے امراء کو دعوت دی جاتی ہے اس کا کیا حکم ہے ؟
اپنی وسعت اور استطاعت کے بقدر ولیمہ کرنا سنّت ہے ،البتہ یہ عمل سنت اس وقت سمجھا جائے گا ،جب وہ حضور ﷺ کے مبارک طریقے سے میل کھاتا ہو ،یعنی وہ رخصتی کے بعد ہو اور اس میں تفاخر ،نام و نمود ، ریا اور شہرت بازی کو کسی صورت جگہ نہ دی جائے، اور ایسا ہرگز نہ ہوکہ مالداروں کو تو شریک کر لیا جائے اور خوشی کے اس اہم موقع پر فقراء اور مساکین کو بالکل فراموش کر دیا جائے۔لما في المشكاة المصابیح:
" عن أنس «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة فقال: ما هذا؟ قال: إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب، قال: بارك الله لك، أولم ولو بشاة.» متفق عليه.
(كتاب النكاح، باب الوليمة، الفصل الأول، الرقم:3216، 2589، ط:دارالسلام)
وفي المرقاة:
" أولم ولو بشاة أي اتخذ وليمة قال ابن الملك تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب قيل أنها تكون بعد الدخول وقيل عند العقد وقيل عندهما واستحب أصحاب مالك أن تكون سبعة أيام والمختار أنه على قدر حال الزوج ".(کتاب النکاح، باب الوليمة، الفصل الأول، 370/6: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/155