وعظ پر متعین رقم لینے کا حکم

وعظ پر متعین رقم لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل بعض خطیب اور مقرر حضرات بیان کرنے کے پیسے لیتے ہیں اور رقم بھی متعین کرتے ہیں کہ اتنی رقم دو گےتو بیان کریں گے، ورنہ نہیں تو کیا بیان کے پیسے لینا درست ہے یا نہیں؟ اوراگر خطیب رقم متعین نہ کریں اور لوگ اپنے طور پر پیسے دیں تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر خطباء اور مقررین حضرات نے اپنے آپ کو وعظ کہلوانے کے لئے فارغ کر رکھا ہے تو ان کے لئے وعظ وبیان کرنے پر متعین  معاوضہ لینا درست ہے، اور اگر وہ بیان وغیرہ کے لئے مختص نہیں ہے، بلکہ  کبھی اتفاق سے وعظ کہنے کی نوبت آئےتو پھر معاوضہ لینا درست نہیں ہے، البتہ واعظ اگر محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے وعظ کہہ دے اور کوئی شخص اس کو اپنے طوپر کچھ رقم دے دے تو اس کے لئے یہ رقم لینا درست ہے۔
لمافي الدر المختار:
’’ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان‘‘.
وتحته في الرد:
’’قوله:(ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا -رحمهم الله تعالى- استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى،وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار. وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ.
في الخلاصة، وفي الأصل، لا يجوز الاستيجار على الطاعات، تعليم القرآن والفقه والأدب والتذكير والتدريس والغزو، وعند أهل المدينة يجوز، وبه أخذ الشافعي، وبه أخذ نصير وعثمان وأبو نصر، وبه كان يفتي الفقيه أبو الليث‘‘.(كتاب الإجارة، باب الا ستيجار على الطاعات: 127/15، رشيدیة).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/223